Maktaba Wahhabi

178 - 402
قاری صاحب روزِ اول سے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ساتھ وابستہ رہے۔مولانا لکھوی کے دورِ امارت میں وہ سینئر مرکزی نائب امیر تھے۔جمعیت کی شوریٰ اور عاملہ کے اجلاسوں میں ان کی آرا و تجاویز فیصلہ کن ہوتیں۔کراچی میں بڑے بڑے جماعتی مدارس میں وہ صدرِ مدرس کے طور پر اعلیٰ کتب پڑھاتے رہے اور پھر تبلیغ و تنظیمِ جمعیت میں خاصا وقت نکالتے۔ائمہ سلف کی طرح قاری صاحب ایک کامیاب تاجر بھی تھے۔میرٹ روڈ پر ان کا امپورٹ ایکسپورٹ کا دفتر تھا۔نمازِ ظہر تک تعلیمی و تدریسی ذمے داریاں نبھا کر دفتر آ کر کاروبار کرتے۔کچھ عرصے کے بعد جماعتی تنازعات سے دل برداشتہ ہو کر گوشہ نشین ہو چکے تھے،تاہم ان کی تعلیمی سرگرمیاں بدستور جاری تھیں۔ 1970ء میں مرکزی جمعیت کے ناظمِ اعلیٰ میاں فضل حق کی سربراہی میں ایک وفد مولانا محمود احمد میرپوری (جو ابھی انگلینڈ نہیں گئے تھے) اور راقم پر مشتمل سندھ کے دورے پر گیا۔سکھر،میرپور خاص اور حیدر آباد سے ہوتے ہوئے ہم کراچی پہنچے،جہاں قاری صاحب اور حکیم محمد یعقوب اجملی کو ساتھ ملا کر پورے شہر سے رابطہ ہوا اور ایک ہفتہ قیام کر کے آخر میں نمایندہ اجلاس میں حکیم اجملی مرحوم کو امیر جمعیت بنایا گیا،جنھوں نے چند ہفتوں کے بعد قاری صاحب کی سرپرستی میں مرکزی جمعیت کو ایک فعال اور موثر تنظیم بنا دیا۔اس کام میں سید عبدالرحیم غزنوی،حاجی محمد احمد لوہیا،حاجی طلحہ کریانہ والے اور حاجی اسماعیل سہ پارہ جیسے تجار کی دامے درمے سخنے انھیں معاونت رہی،انہی کوششوں کے باعث آج کراچی میں مساجد و مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔ حافظ محمد اسماعیل روپڑی 1962ء میں انتقال کر گئے،لیکن گذشتہ ایک لمبے
Flag Counter