Maktaba Wahhabi

157 - 402
مواعظ و تذکیر سے مستفید نہیں ہوا ع یہ نصف صدی کا قصہ ہے،دو چار برس کی بات نہیں حیاتِ مستعار کی یہ طویل مدت اور میدانِ تبلیغِ دین کی یہ شب و روز جدوجہد ان شاء اﷲ روزِ محشر ان کے لیے بہت بڑے اجر و ثواب کا باعث ہو گی ع ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد یوں تو فیصل آباد اور مضافات میں مرحوم کی تقریریں شمار نہیں کی جا سکتیں،مگر جامعہ رحمانیہ مندر گلی میں 1960ء سے لے کر قریباً 1980ء تک پندرہ بیس سال مسلسل ستائیسویں رمضان المبارک میں کی جانے والی ان کی تقاریر بڑی معرکہ آرا اور نتیجہ خیز تھیں۔اس زمانے میں زیادہ تر آبادی شہر ہی میں تھی۔امن و امان کا دور دورہ تھا۔لاؤڈ سپیکر کی منظوری وغیرہ کے مسائل آج کی طرح نہ تھے۔ستائیسویں کی تمام رات چار پانچ گھنٹوں پر محیط شیخ القرآن مولانا شیخوپوری کی شعلہ نوائی شہر بھر میں گونج گونج جاتی۔قرآن مجید کے فضائل و برکات کی بہار اور پھر ع چٹھی آسمانی سرور احمدؐ نوں آئی آ کی لحنِ داودی خوب سماں باندھتی۔ مسجد رحمانیہ مندر گلی کی تنگ دامانی کے سبب ارد گرد کی گلیوں اور بازاروں میں گھنٹوں لوگ بیٹھے رہتے ہیں تو بیٹھے اور کھڑے ہیں تو کھڑے رہ جاتے۔ایک سال یہ سلسلہ تب ٹوٹا جب مولانا محمد اسحاق رحمانی قائم مقام ناظمِ اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث نے چینیاں والی مسجد لاہور میں مولانا شیخوپوری کو ستائیسویں کے لیے مجبور کر دیا۔(مولانا رحمانی مرحوم،علامہ احسان الٰہی ظہیر سے قبل اس مسجد میں خطبہ دیا کرتے تھے) چنانچہ میرے والد مرحوم نے حضرت سید عبدالغنی شاہ سے رابطہ کیا اور اس
Flag Counter