اور خوب ظاہر ہے کہ یہ حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عداوت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ان کی لڑائی عداوت کی بنا پر تھی بلکہ یہ فساد دور کرنے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینے کے لیے مقابلہ ہو گیا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے مشاجرات کے بارے میں شاہ صاحب نے اصولا" اہل سنت کے موقف کی خوب وضاحت کر دی ہے کہ ان کی یہ لڑائیاں بر بنائے اجتہادی تھیں گو ان میں سے ایک کا موقف خطا پر مبنی تھا، اور ان کی تاویل درست نہ تھی تا ہم ان میں سے کسی فریق پر حرف گیری درست نہیں بلکہ اس بارے میں توقف اور سکوت ہی کرنا چاہیے۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ سلف کی تمامترتصریحات اور حضرت شاہ صاحب اور ان کے والد گرامی کے ان اقوال کے بالکل برعکس بعض نے بڑی جرأت رندانہ سے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں اجتھادی غلطی نہ تھی۔ اور شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ایک دو عبارتوں سے اس سلسلے میں بلا جواز سہارا لیا۔ اس کی تفصیل کا یہ محل نہیں حالانکہ سلف کے کلام میں بتکرار آپ پڑھتے آئے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے شبہات کیا تھے، بلکہ بقول حضرت شاہ ولی اللہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل جمل سے بھی زیادہ اشکالات تھے، علاوہ ازیں جس دلیل کی بنیاد پرحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو خطا کار ٹھہرایا گیا ہے، اندازہ کیجئے اس کے باوجود حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی جبکہ بالآخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور انہیں امیر تسلیم کیا، یہ حضرات آخر کس کس کو خطا کار ثابت کریں گے۔ علامہ پرھاری رحمہ اللہ کا موقف حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ محدث دہلوی کے ہم نام اور ہم عصر علامہ ابو عبدالرحمن عبدالعزیز قریشی پرھاری المتوفی 1239 ھ پرھاراں کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ کے نواحی قصبہ کا نام ہے۔ اور یہ ان کا مولدو مدفن ہے کل تینتیس سال عمر پائی مگر اتنی سی عمر میں تین درجن سے زائد کتابیں لکھیں ۔ ( فقہائے ہندص 100 تیرھویں صدی ہجری وغیرہ) علامہ تفتازانی رحمہ اللہ کی شرح العقائد کا حوالہ آپ پہلے پڑھ آئے ہیں ۔اس کی شرح میں |