Maktaba Wahhabi

73 - 116
تھا گو ان سے خطا ہو گئی۔ بلکہ یہ سب حضرات اپنے مقاصد کے اعتبار سے حق پر تھے‘‘ اسی طرح انہوں نے تیسویں فصل کے اختتام پر فرمایا ہے کہ: ’’اپنے نفس اور اپنی زبان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کے ساتھ تعرض کرنے سے روکو اور ان کے مابین ہونے والے واقعات کے متعلق شک و ریب سے اپنے دل کو پریشان نہ کرو، اور جہاں تک ہو سکے ان کا صحیح محمل تلاش کرو وہ بجا طور پر اسی کے حق دار ہیں ‘‘ (مقدمہ ابن خلدون ص 218) تاریخ و سیر کے بے لاگ مطالعہ کے بعد علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کا جو تجزیہ پیش کیا ہے ایک مسلمان کے یہی شایان شان ہے اور یہی سلف کا موقف ہے جیسا کہ مسلسل آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کا فرمان مشہور مفسر و مورخ امام ابو الفداء عماد الدین اسماعیل ابن کثیر المتوفی 774ھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ثم کان ما کان بینہ وبین علی بعد قتل عثمان علی سبیل الاجتہاد والرأی فجری بینھما قتال عظیم کما قدمنا وکان الحق والصواب مع علی ومعاویۃ معذور عند جمہور العلماء سلفاً وخلفاً‘‘(البدایۃ ج 8ص 126) پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو کچھ تھا اجتہاد وقیاس کی بنا پر تھا ان کے مابین قتال عظیم ہوا جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ سلف و خلف میں جمہور علمائے کرام کا یہی موقف رہا ہے کہ حق و صواب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ معذور تھے۔ امام ابن کثیر اسی بات کو ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرماتے ہیں : فھذا الحدیث من دلائل النبوۃ اذ قد وقع الأمر طبق ما أخبر بہ علیہ الصلاۃ والسلام، وفیہ الحکم بإسلام الطائفتین أھل الشام و اھل العراق، لا کما زعمہ فرقۃ الرافضۃ والجھلۃ العظام من تکفیرھم و
Flag Counter