سنجیدگی سے جواب دیا ہے۔ اور آخر میں صاف طور پر لکھا ہے کہ مشاجرات صحابہ مبنی بر خطا اجتہادی تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں : مقالہ رد مطاعن عن صحابہ رضی اللہ عنہ میں واضح ہو چکا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی جھگڑے اور لڑائیاں اجتہادی غلطی کی وجہ سے ہوئیں جس سے کسی فریق کا کفر ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑ پڑے، کیونکہ ان میں کجی و ٹیڑھ اور شبہ و تاویل ہو گیا ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے شاید اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ لہذا یہ مشاجرات معاویہ رضی اللہ عنہ و عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے صحابی رسول ہونے کے منافی نہ ہیں، یہ بزرگ صحابی رسول ہیں تو غیر صحابی سے ان کی فضیلت اور برتری عمومات کتاب و سنت کے ضمن میں لازم آئی ہے اگرچہ افضیلت میں ازعرش تا فرش سے بھی زیادہ تفاوت ہو۔ لہذا جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نیکی اور دعا سے یاد کرنا چاہیے ان کے حق میں کینہ اور عداوت نہیں رکھنی چاہیے، مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں زبان بند رکھنی چاہیے اور اچھی تاویل کرنی مناسب ہے۔ (السیف المسلول مترجم 485,484 ) اسی طرح رافضیوں کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ’’آٹھواں طعن‘‘ کا تفصیلی جواب دینے کے بعد لکھتے ہیں :’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دشمنی رکھنا اور ان کے بے شمار مناقب کو فراموش کرکے چند واقعات کو بنیاد بنا کر ان پر طعن کرنا اپنے دین سے دشمنی رکھنا ہے، ہونا تو ایسا چاہیے کہ اگر ان سے کوئی بات یا فعل ثابت ہو جائے جو بظاہر شرع کے خلاف ہے تو اس کی تاویل کر دینی چاہیے اور ان کے متعلق حسن ظن سے کام لینا چاہیے اس لیے کہ اس جماعت کے لئے نیکی اور خیر کی شہادت شرع میں ثابت ہو چکی ہے۔" (السیف المسلول ص 380 ) سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ محدث دہلوی برصغیر میں فتنہ رفض و تشیع کو فرو کرنے اور اس کے اثر سے اہل سنت کو محفوظ کرنے کی جو ابتدا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی بے نظیر کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ |