Maktaba Wahhabi

59 - 116
ماقدمنا بیانہ ‘‘ (الغنیۃ ص 79ج 1) اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام کے مشاجرات سے خاموشی اختیار کی جائے اور ان کی کمزوریوں پر خاموش رہنا اور ان کے فضائل‘ ان کی خوبیوں کو بیان کرنا واجب ہے، اور حضرت علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عائشہ‘ معاویہ رضی اللہ عنہم کے مابین جو اختلاف ہوا اسے اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہئے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ۔ حضرت محبوب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی ان تصریحات سے اہل سنت کے موقف کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو حضرات اس کے برعکس موقف رکھتے ہیں، ان واقعات کو دہراتے اور موضوع بحث بناتے ہیں ان کا یہ انداز بہرحال اہل سنت کا نہیں بلکہ اہل بدعت کا ہے۔ اللھم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ امام الحرمین رحمہ اللہ کا فرمان امام الحرمین عبدالملک الجوینی رحمہ اللہ المتوفی 478ھ رقمطراز ہیں ۔ ’’بل الحق واحد لابعینہ فإن علیاً کرم اللّٰہ وجھہ قاتل معاویۃ رحمہ اللّٰہ فی الإمامۃ وعلی کان مصیباً ومعاویۃ کان مخطئاً رضی اللّٰہ عنھما وکان معذوراً فی خطئہ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام من اجتھد فأصاب فلہ اجر ان ومن اجتھد فأخطأ فلہ اجر وأحد‘‘ ألخ (مغیث الخلق ص 9) ’’بلکہ حق ایک ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجھہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے امامت کے بارے میں قتال کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خطا پر، اللہ تعالیٰ دونوں پر راضی ہو۔ اور معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی خطا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق معذور تھے کہ جس نے اجتہاد کیا اور حق کو پہنچا اسے دوہرا اجر ملے گا اور جس نے خطا کی اسے ایک اجر
Flag Counter