فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی، مگر اس کی بنیاد امام زہری رحمہ اللہ کے قول پر ہے جو مرسلاً ہے جبکہ صحیح سند سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں بیعت عامہ کے وقت ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت کر لی تھی۔ جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اﷲنے کتاب الاعتقاد ص 178‘ السنن الکبریٰ ص 143ج 8 میں اور امام حاکم نے المستدرک ص 76ج 3 میں بیان کیا ہے جسے حافظ ابن کثیر نے البدایہ ص 248‘ 249 ج 5‘ ص 302 ج 6 میں بھی نقل کیا ہے امام بیہقی رحمہ اللہ اور حافظ ابن کثیر نے اس کو صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو السنن الکبریٰ ص 300ج 6‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابن حبان کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ چھ ماہ کے بعد بیعت ازالہ شبہ کے لئے بیعت ثانیہ تھی۔ فتح الباری ص 495ج 7 باب غزوۃ خیبر رقم الحدیث 4241‘ مزید تفصیل کا یہ محل نہیں ۔ ثانیاً : علامہ السفارینی نے جنگ جمل و صفین سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کے بارے میں جو یہ فرمایا کہ وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ پائے تھے اس لئے علیحدہ رہے محل نظر ہے جب کہ صحیح یہ کہ اس بارے میں وہ حضرات متعدد نصوص کی بنا پر علیحدہ رہے جیسا کہ پہلے اس کی مختصراً وضاحت گزر چکی ہے۔ امام الہند شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ کا فیصلہ امام الہند حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب " إزالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء" کی اہمیت کسی صاحب علم پر مخفی نہیں ۔ حضرت شاہ صاحب مشاجرات صحابہ کے حوالہ سے اپنے انداز میں لکھتے ہیں : واما آن کہ حضرت عائشہ و طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم مجتہد مخطی معذور بودند ازاں قبیل کہ من اجتھد فقد اخطأ فلہ اجرواحد پس ازاں جہت کہ متمسک بودند بشبہ ہر چند دلیل دیگر ارجح ازوی بود وموجب آن شبہ دو چیز است۔ ألخ (ازالۃ الخفاء ص 279ج 2ومترجم 521 ج 4) ’’رہا یہ کہ حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر ث خطا کرنے والے معذور تھے اس اصول پرکہ جس نے اجتہاد کیا اور خطا کھائی تو وہ ایک ا جر کا مستحق ہے تو وہ اس اعتبار سے |