مندی کا اظہار کرنا‘ان سے محبت کرنا‘ ان پر اعتراضات کی روش چھو ڑنا، انہیں معذور سمجھنا اور یہ یقین رکھنا واجب ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ ایسے جائز اجتہاد کی بنا پر کیا جس سے نہ کفر لازم آتا نہ ہی فسق ثابت ہوتا ہے، بلکہ بسااوقات اس پر انہیں اجر و ثواب ملے گا اس لئے کہ یہ ان کا جائز اجتہاد تھا، بعض حضرات نے کہا ہے حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور جنہوں نے ان سے قتال کیا ان کی غلطی معاف کر دی گئی ہے اور الدرۃ المضیئۃ کی نظم میں جو مشاجرات کے معاملے میں غور و فکر سے منع کیا گیا ہے وہ اس لئے کہ امام احمد رحمہ اللہ اس شخص پر نکیر کرتے تھے جو اس بحث میں الجھتا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں جو احادیث آئی ہیں انہیں تسلیم کرکے ان لوگوں سے برأت کا اظہار فرماتے تھے جو صحابہ کو گمراہ یاکافر کہتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ میں سکوت اختیار کیا جائے۔(لوائح الانوار البھیۃ ص 369‘ 370ج 2) اسی طرح لوائح الانوار ص 46ج 1 میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شرف و فضل کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ’’ لوگوں پر واجب ہے کہ ان کے محاسن کو بیان کریں اور ان کے مابین ہونے والے اختلاف سے زبان بند رکھیں، اور اس اختلاف کو ان کے اجتہاد کا نتیجہ سمجھیں کہ ان میں سے ہر فریق نے جو کیا وہ سمجھتا تھا کہ اس کے لئے اسی پرعمل کرنا واجب ہے دین اور مسلمانوں کے لئے یہی مناسب ہے اور ہر مجتہد کو اس کے عمل کا ثواب ملتا ہے۔ ‘‘ علامہ السفارینی رحمہ اللہ کے اس تفصیلی بیان سے اہل سنت کے موقف کو سمجھنے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بہر نوع احترام اور ان سے محبت کا اظہار کرنا چاہئے۔ ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جس میں سوء ادب کا پہلو پایا جاتا ہو۔ ان کے باہمی مشاجرات کے بارے میں بھی خاموشی اختیار کرنی چاہئے اور ان کے باہمی ان نزاعات کو اختلاف اجتہاد وتاویل پر محمول کرنا چاہئے۔ البتہ ان کے کلام میں مزید دو باتوں کی وضاحت مختصراً ضروری ہے۔ اول یہ کہ معروف قول کے مطابق انہوں نے فرمایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت |