Maktaba Wahhabi

107 - 116
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمنواؤں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کو جو جائز سمجھا تو اس میں ان میں سے بعض حضرات مجتہد تھے اور بعض ان کی اقتداء کرنے والے تھے، اور اس بات پر اہل حق کا اتفاق ہے کہ ان لڑائیوں میں بلا ریب حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے۔ اور وہ عقیدہ برحق جس پر کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی یہ ہے کہ تمام صحابہ کرامث عاد ل تھے اس لیے کہ انہوں نے تمام جنگوں میں تاویل و اجتہاد سے کام لیا، اس لیے کہ اہل حق کے نزدیک حق ایک ہی ہوتا ہے، لیکن حق تک پہنچنے کے لیے پوری کوشش کرنے اور کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنے کے بعدکسی سے غلطی بھی ہو جائے تو وہ اجر کا حق دار ہے گناہ گار نہیں ۔ ان لڑائیوں کا سبب دراصل معاملات کا اشتباہ تھا، یہ ا شتباہ اسقدر شدید تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اجتہادی آراء مختلف ہو گئیں ۔ اور وہ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک جماعت تو وہ تھی جن کے اجتہاد نے انہیں اس نتیجہ تک پہنچایا کہ حق فلاں کے ساتھ ہے اور اس کا مخالف باغی ہے۔ لہٰذا ان کے اس اجتھاد کے مطابق برحق فریق کی مدد کرنا اور باغی گروہ سے لڑنا واجب ہے، چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا، اور ظاہر ہے کہ جو اس نتیجہ پر پہنچا ہو اس کے لیے ہرگز درست نہیں کہ وہ امام برحق کی مدد اور باغیوں سے لڑائی میں کوتاہی کرے، دوسری قسم اس کے برعکس ہے اور اس جماعت پر بھی وہی کچھ صادق آتا ہے جو پہلی قسم کے لیے بیان ہواہے۔ صحابہ کی ایک تیسری جماعت وہ تھی جس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا اور اس پر یہ واضح نہ ہو سکا کہ فریقین میں سے کس کوترجیح دی جائے، یہ جماعت فریقین سے کنارہ کش رہی، ان حضرات کے حق میں یہ کنارہ کشی ہی واجب تھی، اس لیے کہ جب تک کوئی شرعی سبب واضح نہ ہو کسی مسلمان کے خلاف قتال کرنا حلال نہیں ۔خلاصہ کلام یہ کہ تمام صحابہ معذور اور ماجور ہیں گنہگار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حق کے قابل ذکر علماء کا اس پر اتفاق ہے ان کی شہادت و روایت قبول ہے اور وہ سب عادل ہیں، اس لیے ہمارے ملک کے علماء نے بلکہ ان کے علاوہ دیگر تمام اہل سنت نے جن میں ابن حمدان ( صاحب نہایۃالمبتدعین) بھی داخل ہے فرمایا ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا اور ان کے درمیان جو واقعات رونما ہوئے ان کو لکھنے‘ پڑھنے ‘ پڑھانے ‘ سننے اور سنانے سے اجتناب کرنا واجب ہے، اور ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرنا ان سے رضا
Flag Counter