جو کچھ اس نے کمایا۔ (طبقات الحنابلہ ص 97 ج 1۔ شرح فقہ الاکبر ص 71) امام محمد رحمہ اللہ بن احمد ابو علی الھاشمی القاضی کا شمار امام احمد رحمہ اللہ کے ارشد تلامذہ میں ہوتا ہے۔ موصوف عقیدہ اہل السنۃ کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ولانبحث عن اختلافھم فی أمرھم ونمسک الخوض فی ذکر ھم الابأحسن الذکرلھم...... ولا ندخل فیما شجر بینھم‘‘ (طبقات الحنابلۃ ص 185 ج 2، المنھج الأحمد ص 117ج 2) ہم ان کے کسی معاملہ میں اختلاف کے متعلق بحث نہیں کرتے اور اچھے ذکر کے علاوہ ان کے ذکر میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور ان کے باہم مشاجرات میں کوئی دخل اندازی نہیں کرتے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید کا یہ بیان بھی حقیقۃً امام احمد رحمہ اللہ کے مؤقف کا ہی ترجمان ہے جس کا ثبوت ہم متعدد حوالوں سے پیش کر آئے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی من جملہ تصانیف میں ایک کتاب ’’الفقہ الاکبر‘‘ کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔ گو اس بارے میں بھی اہل علم کا اختلاف ہے تاہم بہت سے حضرات اسے امام صاحب ہی کی تصنیف قرار دیتے ہیں، اس کتاب میں وہ فرماتے ہیں : ’’نتولاھم جمیعاً ولانذکرالصحابۃ‘‘ علامہ علی رحمہ اللہ قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ’’ولانذکر أحداً من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلا لخیر‘‘ کہ ہم سب صحابہث سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے۔ علامہ علی قاری رحمہ اللہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں :۔ یعنی وإن صدر من بعضھم بعض ماھو فی الصورۃ شرفإنہ اما کان عن اجتھاد ولم یکن علی وجہ فساد من إصرار وعناد‘ بل کان رجوعھم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بھم‘‘ (شرح الفقہ الأکبر ص 71) ’’یعنی گو بعض صحابہ سے صورۃ شرصادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا |