الحسن والثناء الجمیل۔۔۔۔۔۔۔ ویمسک عن الخوض فیما جری بصفین والجمل ویقول: تلک دماء صان اللّٰہ یدی عن ملابستھا فأصون لسانی عن الخوض فیھا۔‘‘ (طبقات الحنابلۃ ص 272‘ 273 ج 2) امام احمد رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والے مشاجرات میں غور و خوض سے منع فرماتے اور کہتے کہ ان کے بارے میں صرف اچھی بات کہی جائے اور ان کی اچھی تعریف کی جائے، جنگ صفین جنگ جمل میں بحث و تکرار سے اجتناب کیا جائے۔ وہ فرمایا کرتے تھے: کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں کو ان کے خون سے آلودہ ہونے سے بچایا ہے تو میں اپنی زبان کو ان میں بحث و تکرار سے روکتا ہوں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے تلامذہ میں ایک امام عبدوس رحمہ اللہ بن مالک ابو محمد العطار ہیں ۔ جو امام صاحب سے عقیدہ اہل السنۃ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ سب سے افضل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ان کے بعد اصحاب شوری خمسہ کا درجہ ہے پھر اہل بدر کا علی حسب تقدم ہجرت و مسابقت، پھر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جو آپ کے دور مبارک میں تھے جو ایک سال یا ایک ماہ یا ایک دن یا ایک گھڑی آپ کی مصاحبت میں رہے یا جنہوں نے آپ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ان میں سے کم تر صحبت والے بھی ان سے افضل ہیں جو آپ کی زیارت سے محروم رہے اگر چہ انہوں نے زندگی بھر اعمال حسنہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی ہو اور جنہوں نے ایک گھڑی آپ کے ساتھ گزاری وہ بہر نوع تابعین سے افضل ہیں ۔ (ملخصاً) (طبقات الحنابلہ ص 243 ج 1) امام احمد رحمہ اللہ کے اس کلام سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت اور مشاجرات کے بارے اہل السنہ کے عقیدہ و مسلک کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ سے کسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین ہونے والی نزاع کے بارے دریافت کیا تو انہوں نے اس سے اعراض کیا اور فرمایا یہ پڑھو : تلک امۃ قدخلت لھا ماکسبت۔ الآیۃ۔ کہ وہ امت گزر چکی اس کے لئے ہے |