سے صرف نظر کرکے ہمیں بہر آئینہ ان سے محبت رکھنی چاہیے۔ ان کے بارے میں استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ اور ہمیشہ ان کی تعظیم و توقیر ہی کرنی چاہئے۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے الفصل فی الملل والاھواء والنحل (ص 158‘ 161 ج 4) میں بھی اس موضوع پر تفصیلاً بحث کی ہے۔ شائقین ’’الفصل ‘‘ملاحظہ فرمائیں ۔ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کا تبصرہ فیلسوف تاریخ اسلام علامہ عبدالرحمن رحمہ اللہ بن محمد بن خلدون حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویۃرضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والے نزاعات کا تجزیہ کرتے ہوئے ’’الفصل الثالث من الکتاب الاول‘‘ کی فصل نمبر28میں لکھتے ہیں : ولما وقعت الفتنۃ بین علی ومعاویۃ وھی مقتضی العصبیۃ کان طریقھم فیھاالحق والاجتھاد، ولم یکونوا فی محاربتھم لغرض دنیوی أو لإیثار باطل أو لاستشعار حقد کما قدیتوھمہ متوھم، وینزع الیہ ملحد، و إنما اختلف اجتھادھم فی الحق وسفہ کل واحد نظر صاحبہ باجتھادہ فی الحق فاقتتلوا علیہ وان کان المصیب علیاً فلم یکن معاویۃ قائماً فیھا بقصد الباطل، إنما قصد الحق وأخطأ، والکل کانوا فی مقاصد ھم علی حق ‘‘ (مقدمہ ابن خلدون ص 205الفصل الثامن والعشرون) ’’اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان فتنہ رونما ہوا یہ اگرچہ عصبیت کا مقتضی تھا لیکن ان کا طریقہ حق اور اجتہاد پر مبنی تھا ان کی لڑائی دنیوی غرض یا باطل کی پیروی میں نہ تھی اور نہ ہی اس کا سبب کینہ اور بغض تھا جیسا کہ وہم پرستوں اور ملحدوں کا خیال ہے انہوں نے ایک امر حق میں اجتہاد کیا، اسی کی بنا پرہر ایک اپنے دوسرے کی نظر میں غیر بردبار بن گیا تو وہ لڑائی میں مبتلا ہو گئے، اس معاملہ میں اجتہاد اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا درست تھا مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی کسی باطل کے ارادہ سے اس میں شریک نہ تھے۔ مقصد ان کا بھی حق |