Maktaba Wahhabi

71 - 116
انہیں قطعی جنتی اور ان کے بارے میں اللہ کی قطعی رضا کا فیصلہ نہیں کرتے۔ اگرچہ حسن ظن کی بنا پر ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے یہی امید رکھتے ہیں، جب ائمہ مجتہدین کے بارے میں یہ فکر ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ جائز کیوں نہیں ؟ (ملخصاً) اس سلسلے میں ان کے آخری الفاظ ہیں : ثم لانجیز ذلک لعلی وأم المؤمنین وطلحۃ والزبیر و عمار وھشام بن حکیم ومعاویۃ وعمرو و النعمان وسمرۃ وابی الغادیۃ و غیر ھم وھم أئمۃ الاسلام حقاً والمقطوع علی فضلھم وعلی أکثرھم بأنھم فی الجنۃ، وھذا لایخیل إلاعلی مخذول وکل من ذکرنا من مصیب أو مخطئ فمأجور علی اجتہادہ إما أجرین وإما أجراً و کل ذٰلک غیر مسقط عدالتھم۔ (الأحکام ص 85‘ 86 ج 2) ’’مگر یہی حق حضرت علی ام المؤمنین عائشۃ‘ طلحۃ‘ زبیر‘ عمار‘ ھشام بن حکیم‘ معاویۃ‘ عمرو بن عاص‘ نعمان‘ سمرۃ‘ ابو الغادیۃ اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو نہیں دیتے۔ حالانکہ وہ دین کے سچے امام ہیں ان کی فضیلت اور ان میں سے اکثر کا جنتی ہونا قطعی اور یقینی ہے۔ یہ خیال تو کسی مخذول کا ہی ہو سکتا ہے۔ (کہ متاخرین مجتہدین کے باہمی حلت و حرمت کے اختلاف میں انہیں معذور سمجھے مگر مجتہدین صحابہ کرام کو معذور نہ سمجھے) جن صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہم نے ذکر کیا ان میں سے ہر ایک مصیب ہو ں یا مخطی، بہرنوع اسے اس کے اجتہاد پر اجر ملے گا دوہرا اجر ملے یا ایک گنا۔ اور یہ جو کچھ ان سے صادر ہوا اس سے ان کی عدالت ساقط نہیں ہوتی۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت کے ضمن میں ان کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے نتیجہ میں مبتدعین نے جو ان پر لب کشائی کی علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس کا دفاع کرتے ہوئے جہاں یہ ثابت کیا ہے کہ ان واقعات سے ان کی عدالت مجروح نہیں ہوتی وہاں یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت کا یہی موقف ہے کہ ان کے اختلافات
Flag Counter