ذکرنا علی عھدہ علیہ السلام صغیراً أو بالغاً‘‘ ألخ۔ (الأحکام فی اصول الأحکام ص 89 ج 5) ’’ہمارے ذمہ فرض ہے کہ ہم ان کی توقیر وتعظیم کریں ان کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا کریں اور ان سے محبت کریں ان میں سے کسی ایک کا ایک کھجور صدقہ ہمارے تمام مال و متاع کے صدقہ کرنے سے افضل ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ان کی ایک مجلس ہماری زندگی بھر کی نیکیوں سے افضل ہے، یہ درجہ و مرتبہ ان میں سے ہر ایک کو حاصل ہے خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بالغ تھا یا نابالغ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت علمائے امت کے ہاں متفق علیہ ہے۔مبتدعین نے اس بارے میں جن شکوک و شبہات کی بنیاد پر اختلاف کیا ان کا ازالہ کرتے ہوئے علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس طرح وہ سب متأول تھے جنہو ں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے دن قتال کیا، رہے اہل جمل تو انہوں نے ہر گز حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کا ارادہ نہیں کیا اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی کا قصد کیا، وہ تو بصرہ میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق غور و فکر کرنے اور ان کے متعلق اللہ کا حکم (قصاص) نافذ کرنے کی غرض سے جمع ہوئے تھے۔ قاتلین سید نا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بارے میں اللہ کا فیصلہ (قصاص) کئے جانے کا خطرہ محسوس کیا وہ کئی ہزار کی تعداد میں تھے انہوں نے چپکے سے لڑائی کے شعلے بھڑکا دیئے حتیٰ کہ فریقین نے جب دیکھا کہ لڑائی سر پر آ گئی ہے تو ہر ایک اپنے دفاع پر مجبور ہو گیا، اور یہ بات صریحاً تاریخی روایات میں منقول ہے انتہائی عجیب بات ہے کہ ہم امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام لیث‘ امام سفیان‘ امام احمد اور امام داؤد رحمہم اللہ کے لئے تو قصاص‘ حدود اور معاملات میں اجتہاد کو درست قرار دیتے ہیں حالانکہ ایک مجتہد اگر کسی معاملہ میں قصاص وحد کا فیصلہ دیتا ہے تو دوسرا اس کا انکار کر تا ہے ایک مال کو حلال دوسرا حرام‘ ایک مباح الدم سمجھتا ہے تو دوسرا حرام، ایک عمل کو فرض دوسرا اسے ساقط قرار دیتا ہے، یہ اختلاف تو ان مجتہدین کا گورا ہے اور اس کی گنجائش بھی سمجھتے ہیں اور انہیں معذور بھی قرار دیتے ہیں، ہم ان کے بارے میں یہی سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ائمہ دین میں سے تھے ان کی تعظیم وتوقیر ضروری ہے مگر ہم |