حالانکہ ان کے باہمی منازعات کے سلسلے میں ایک دوسرے کے بارے میں ان کا تبصرہ محل استد لال قرار دینا بجائے خود غلط ہے، میراث نبوی کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مابین اختلاف ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق اور صحابہ کی ایک جماعت کے سامنے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھوٹا‘ گنہگار اور خائن تک کہہ دیا۔(مسلم ص 90 ج2) تو کیا اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس تبصرہ کو درست سمجھ لیا جائے؟ نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا، حضرت عمار رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اہل شام کو کافر مت کہو ہمارا اور ان کا نبی ایک ‘ہمارا اور ان کا قبلہ ایک ہے ’’لکنھم قوم مفتونون‘‘ لیکن وہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ (ابن ابی شیبہ ص 291,290 ج 15) مگر آپ پڑھ آئے ہیں کہ امام عبداللہ رحمہ اللہ بن مبارک نے اسی سلسلے میں فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی، مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہو گیا تھا(السیر ص 405ج8) غور فرمائیے کہاں سلف کا یہ احتیاط و احترام اور کہاں آج انہی کے ایسے اقوال سے ایک دوسرے کی تفسیق و تضلیل پر استدلال، انااللّٰہ وانا الیہ راجعون۔اس لیے شارح المواقف ہوں یا کوئی اور بزرگ، ان کے ایسے اقوال کو ان کی انفرادی رائے تو کہا جاسکتا ہے مگر علمائے اہل سنت کا یہ موقف قطعاً نہیں جیسا کہ حضرت مجدد صاحب اور دیگر حضرات نے بالبداہت فرمایا ہے۔ علامہ تفتا زا نی رحمہ اللہ کا فیصلہ علامہ سعدالدین مسعود بن عمر تفتازانی رحمہ اللہ المتوفی 792 مشہور اصولی اور فقیہ امام ہیں، عقیدہ کے موضوع پر’’ شرح العقائد‘‘ ان کی مشہور تصنیف ہے جو مدارس عربیہ کے نصاب میں شامل ہے۔ اسی کتاب میں وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں رقمطراز ہیں : ویکف عن ذکر الصحابۃ الا بخیر لماروی من الأحادیث الصحیحۃ فی مناقبھم و وجوب الکف عن الطعن.......۔.. وما وقع بینھم من المحاربات والمنازعات فلہ محامل و تاویلات‘‘ (شرح العقائد مع النبراس ص 546,549 ) |