Maktaba Wahhabi

104 - 116
حضرت مجدد رحمہ اللہ نے ان ارشادات میں مشاجرات صحابہث کے بارے میں اہل سنت کے موقف کی جس حسن و خوبی سے وضاحت کی ہے، اس کے بعد سلیم الفطرت انسان کے لیے کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ جن بعض حضرات نے اس سلسلے میں تیزی دکھلائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا کلمات کہے وہ ان کی انفرادی رائے ہے، اسے اہل سنت کا موقف قطعاً" قرار نہیں دیا جاسکتا، حضرت مجدد رحمہ اللہ صاحب نے روافض کے رد میں ’’ردروافض‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ تحریر فرمایا ہے، اس میں مشاجرات کے بارے میں وہی موقف بیان کیا گیا ہے جو مکتوبات میں ہے اس رسالہ کی تعریب بھی ہوئی اور یوں یہ عربی میں بھی 1411ھ بمطابق1991 ھ میں استنبول سے شائع ہو چکا ہے۔شرح المواقف کے حوالہ سے حضرت مجدد رحمہ اللہ صاحب نے جو فرمایا، بلا شبہ قابل غور ہے کہ انہوں نے جو یہ کہہ دیا کہ " ہمارے علمائے سنت کی کثیر تعداد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے والوں کی تفسیق کی قائل ہے۔" یہ علمائے سنت کون ہیں اور وہ کس مقدار میں ہیں ؟ جبکہ ہم نے توقرن اول سے تاہنوز علمائے سنت کا موقف اس کے برعکس پایا، کتب عقائد پر مشتمل معتبر ترین کتابوں کے حوالہ جات قارئین کرام ملاحظہ فرما چکے، فقہائے اربعہ اور حضرات محدثین رحمہ اللہ کی تصریحات بھی آپ کے پیش خدمت کر دی گئیں، اب بتلایا جائے کہ ان کے مقابلے میں " علمائے سنت کی کثیر تعداد " کن حضرات پر مشتمل ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض حضرات محض حق و کالت ادا کرتے ہوئے شارح المواقف علامہ سید شریف علی رحمہ اللہ بن محمدا لجرجانی کی اس عبارت اور بعض اسی نوعیت کے ایک دو اقوال کے سہارے یہ باور کرانے کی پوری کوشش میں ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے والے فاسق تھے، ان کی یہ باہمی لڑائی کسی اجتھادی خطاء کا نتیجہ نہ تھا، اس سلسلے میں بڑی چابکدستی سے السنن الکبری للبیہقی صفحہ نمبر 174 ج 8کے حوالے سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر کا یہ قول بھی ذکر کیا گیا کہ انہوں نے فرمایا یہ مت کہو کہ اہل شام نے کفر کیا۔ لیکن یہ کہو کہ انہوں نے فسق یا ظلم کیا۔"
Flag Counter