Maktaba Wahhabi

103 - 116
ارتکاب کرتا ہے۔" (مکتوبات دفتر اول حصہ دوم مکتوب نمبر 54 ) اسی طرح ایک اور مکتوب میں لکھتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو جنگیں ہوئیں مثلا جنگ جمل اور جنگ صفین ان سب کو اچھے محامل پر محمول کرنا اور خود غرضیوں و تعصبات سے دور رکھنا چاہیے۔ یہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے ہوا وہوس اور کینہ و حرص سے پاک صاف تھے۔ یہ اگر کسی سے مصالحت رکھتے تھے تو صرف حق کے لیے اور اگر کسی سے لڑتے تھے تو صرف اللہ تعالیٰ کے واسطے، بلاشبہ ان میں سے ہرگروہ نے اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کیا، اور بغیر کسی تعصب اور خود غرضی کے دوسروں کو اپنے سے دور کیا۔ ان کا حال یہ ہے کہ جس کا اجتہاد ان میں سے ٹھیک تھا اس کو دو درجے اور ایک قول کے مطابق دس درجے ثواب ملے گا، او ر جس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی ایک درجہ ثواب سے وہ بھی محروم نہیں رہے گا، غرض جن لوگوں سے اجتہاد میں غلطی ہوئی وہ اسی طرح لعن و ملامت سے دور ہیں، جس طرح فریق ثانی۔ بلکہ جیسا کہ بتلایا گیا ہے وہ بھی کم از کم ایک درجہ ثواب کے مستحق ہیں ۔ البتہ علمائے کرام نے یہ فرمایا ہے کہ جنگوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف حق تھا اور آپ کے مخالفین سے اجتھاد میں غلطی ہوئی، بایں ہمہ ان پر طعن نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی کسی ملامت کی گنجائش ہے چہ جائیکہ کفر یا فسق کی ان کی طرف نسبت کی جائے، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں ۔ہم سے باغی ہو گئے ہیں، نہ وہ کافر ہیں نہ ہی فاسق، کیونکہ ان کا اختلاف تاویل پر مبنی ہے جو کفر و فسق کے لیے مانع ہے۔ اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات میں دخل دینے سے بچو، لہٰذا ہم کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم کرنا اور سب کو اچھے لفظوں سے یاد کرنا چاہیے، اور ان میں سے کسی کے حق میں بدگوئی اور بد گمانی نہیں کرنی چاہیے۔ نجات اور کامیابی کا یہی راستہ ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے واسطہ سے ہے، ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ جس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توقیر و تعظیم نہیں کی وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا۔ (مکتوبات دفتر دوم مکتوب 67 )
Flag Counter