نتیجہ نہ تھے، ان کی خواہشات تو شریعت کے مطابق تھیں، نبی خیر البشر ا کی صحبت سے ان کے نفوس پاک صاف اورنفس امارہ کی آلودگیوں سے آزاد ہو گئے تھے، نہ ان کی بنیاد جہالت پر تھی، بلکہ وہ اجتھاد و علم کے نتیجے میں اور اعلائے حق کی خاطر پیش آئے، البتہ اس اجتھاد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مصیب اور ان کے فریق مخالف غلطی پر تھے، لیکن یہ ایسی اجتہادی غلطی تھی جس نے ان کوفسق تک نہیں پہنچایا، بلکہ اس معاملے میں ان کو ملامت کرنے کی بھی گنجائش نہیں ۔ کیونکہ مجتھد خطاکار بھی گنا گار نہیں ایک درجہ ثواب کا ہی مستحق ہے۔ لہٰذا زبان کو ان کے حق میں ناروا بات کہنے سے باز رکھنا اور سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہیے افراط و تفریط کے درمیان یہ راہ اعتدال ہے جسے اہل سنت نے اختیار کیا اور یہی طریقہ اسلم اور سبیل محکم ہے۔ اور " شارح المواقف" نے جو یہ نقل کیا ہے کہ ہمارے بہت سے اصحاب ان مشاجرات کو مبنی بر اجتہاد نہیں مانتے، اس سے مراد کون سے اہل علم ہیں ؟ا ہل سنت تو اس کے برعکس عقیدہ رکھتے ہیں، اہل سنت کی تمام کتابیں اس صراحت سے بھری پڑی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فریق مخالف کی غلطی اجتہادی تھی، جس طرح کہ امام غزالی رحمہ اللہ اور قاضی ابو بکر رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے، لہٰذا ان کی تضلیل و تفسیق جائز نہیں، نہ کوئی مسلمان ایسی جسارت کر سکتا ہے الا یہ کہ اس کا دل روگ اور اس کا باطن خبث سے آلودہ ہو، بعض فقہاء نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں جو " جور کا لفظ استعمال کرکے انہیں امام جائرکہا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہء خلافت میں مستحق خلافت نہ تھے نہ یہ کہ اس سے مراد وہ جور ہے جس کا ماٰل فسق و ضلالت ہے۔ یہ تاویل اس غرض سے کی گئی ہے کہ تاکہ یہ قول بھی اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ہو جائے، لیکن راست رولوگ ایسے الفاظ ہی سے اجتناب کرتے ہیں، جن سے خلافِ مقصود کا وہم ہو سکتا ہے۔ اور وہ لفظ " خطائ" سے زیادہ اور کچھ نہیں کہتے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ظالم ہوں جبکہ صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ حقوق اﷲ اور حقوق المسلمین دونوں کو عد ل و انصاف سے پورا کرنے والے تھے۔ مولانا عبدالرحمن جامی نے ان کے متعلق جو " خطاء منکر" کے الفاظ استعمال کیے ہیں یہ بھی درحقیقت زیادتی ہے، جو شخص بھی غلطی کے علاوہ کسی اور لفظ کا اضافہ کرتا ہے وہ خود زیادتی کا |