استیعاب یہاں مشکل ہے۔ شائقین حضرات سے درخواست ہے کہ وہ پوری تفصیل ان کے مکتوبات میں دفتر اول حصہ دوم مکتوب نمبر80,59,54 حصہ سوم مکتوب نمبر 210 حصہ چہارم مکتوب نمبر226,251 حصہ ششم مکتوب نمبر 32 حصہ ہفتم مکتوب نمبر67 میں ملاحظہ فرمائیں ۔ ہم یہاں مکتوبات کے حوالہ سے چند باتیں نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مجدد صاحب لکھتے ہیں : اہل سنت، اللہ تعالی ان کی مساعی کو قبول فرمائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشاجرات و منازعات کو اچھے محامل پر محمول کرتے ہیں ۔ اور خواہش نفس و تعصب وغیرہ سے دور سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ خیرا لبشر حضرت محمدا کی صحبت کے اثر سے ان کے نفوس صاف اور ان کے سینے عداوتوں اور کینوں سے قطعی پاک ہوگئے تھے، اُن کے ان باہمی معاملات میں ہر ایک کی اپنی رائے تھی اور اپنا اپنا اجتہاد تھا، ہر مجتہد پر اپنے اجتھاد کے مطابق عمل کرنا واجب ہے، اختلاف آراء کی وجہ سے یہ مخالفت و منازعت واقع ہوئی۔ اور ہر ایک نے اپنی رائے کے مطابق عمل کرنا ضروری سمجھا۔ لہٰذاان کی یہ مخالفت رائے حق کی موافقت کے رنگ میں تھی نہ کہ نفس امارہ کی خواہش سے۔.................. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جن حضرات کی لڑائیاں ہوئیں وہ اہل اسلام کی کثیر جماعت تھے اور ان میں بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے اور ان میں بعض وہ بھی ہیں، جن کو دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جنت کی بشارت مل چکی ہے، ان کی تکفیر اور تشنیع کوئی معمولی بات نہیں، بہت برا کلمہ ہے جو انہیں برا کہنے والوں کی زبانوں سے نکلتا ہے، دین و شریعت کا قریباً" نصف حصہ ایسا ہو گا جو انہی کی وساطت سے امت کو پہنچا ہے، اگر وہ بھی مجروح و مطعون ہو جائیں تو آدھا دین بے اعتبار ہو جائے گا۔" (دفتر دوم مکتوب نمبر 36 ) اسی طرح ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں : وہ اختلافات و مشاجرات جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین واقع ہوئے خواہشات نفس کا |