Maktaba Wahhabi

76 - 116
کے خون کے بارے میں ہے اور ہم اس سے بری ہیں ۔‘‘ بلکہ خود جمل و صفین کے بارے میں بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو رائے تھی اس کی تفصیل آئندہ اپنے مقام پر آ رہی ہے۔ان تمام حقائق کے برعکس ’’باغی‘‘ ہونے سے کفر و اسلام یا فسق و فجور کا مسئلہ بنا لینا بہرنوع غلط ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عداوت کا نتیجہ ہے۔ امام ابن اثیر رحمہ اللہ کی وضاحت امام مجددالدین المبارک بن محمد ابن اثیر الجوزی 606ھ اپنی معروف کتاب ’’جامع الاصول‘‘ کے مقدمہ میں مختلف مباحث کے ضمن میں ’’الفرع الثالث فی بیان طبقات المجروحین‘‘ کے تحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت کے خلاف معتزلہ اور قدریہ وغیرہ بدعی فرقوں کے فرقوں کے موقف کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، طلحہ رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اقدام کرنے والے فاسق ہیں ۔ بعض نے انہی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی شامل کیا.... کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وکل ھذا جرأۃ علی السلف تخالف السنۃ، فان ما جری بینھم کان مبیناً علی الاجتھاد، و کل مجتھد مصیب، والمصیب واحد مثاب والمخطئ معذور لا ترد شھادتہ (جامع الاصول ص 133ج 1) یہ سب سلف پر جرأت ہے اور اہل سنت کے خلاف ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین جو کچھ ہوا وہ سب اجتہاد کی بنیاد پر تھا اور ہر مجتہد مصیب ہے۔ (یعنی مصیب ہونے کی کوشش کرتا ہے) اور مصیب ایک ہوتا ہے جسے ثواب ملتا ہے۔ اور مجتہد مخطئ معذور ہے اس کی شہادت مردود نہیں ہوتی۔ نتیجہ بالکل واضح ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں قتال کرنے والوں کو فاسق
Flag Counter