Maktaba Wahhabi

75 - 116
اس سے حافظ ابن کثیر اور اہل سنت کے موقف میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ’’باغی‘‘ تھے، معاذاﷲ فاسق و فاجر نہ تھے، بلکہ عنداﷲ مأجور تھے۔ جن سے بالآخر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت و امارت چھوڑ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کرلی۔ اور اس مصالحت کی تحسین و تصویب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’ ابنی ھذا سید ولعل اللّٰہ أن یصلح بہ بین فئتین من المسلمین۔ ‘‘(بخاری ص 530 ج 1وغیرہ) ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ امید ہے اﷲ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں کے مابین صلح کرائے گا۔‘‘ چنانچہ یوں ہی ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چھ ماہ بعد41ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مابین صلح ہوئی۔ اس سال کا نام ’’عام الجماعۃ‘‘ رکھا گیا، اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی ثابت ہوئی۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل شام کے بارے میں ’’باغی‘‘ ہونے کا قول واقعاتی نقطہ نظر میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کے تناظر میں ہے۔ کفر واسلام سے اس کا قطعاً کوئی تعلق نہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی کیا بلکہ اس کو لکھ کر مختلف شہروں میں بھجوایا کہ : ’’والظاھر ان ربنا واحد و دعوتنا فی الاسلام واحدۃ ولا نستزیدھم فی الایمان باللّٰہ والتصدیق برسولہ ولا یستزیدوننا، والامر واحد الا ما اختلفنا فیہ من دم عثمان و نحن منہ براء۔۔۔ الخ (نہج البلاغۃ ص 114ج 3 و مع ابن ابی الحدی ص 161ج 4) اور ظاہر بات ہے کہ ہم سب کا رب ایک ہے اور ہماری دعوت اسلام ایک ہے۔ اﷲ تعالیٰ پر ایمان اور اﷲ کے رسول کی تصدیق میں نہ ہم ان سے بڑھے ہوئے ہیں اور نہ وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ۔ ہمارا (دینی) معاملہ ایک ہے۔ صرف ہمارا اختلاف حضرت عثمان
Flag Counter