أھل الشام، و فیہ أن اصحاب علی أدنی الطائفتین الی الحق، وھذا ھو مذھب اھل السنۃ والجماعۃ أن علیاً ھو المصیب و إن کان معاویۃ مجتھداً وھو مأجور ان شاء اﷲ۔۔۔ الخ (البدایہ ص 280ج 7) ’’یہ حدیث کہ میری امت دو گروہوں میں بٹ جائے گی، ان دونوں میں سے ایک جماعت دین سے نکل جائے گی۔ تو اس سے وہ قتال کرے گا جو ان دونوں گروہوں میں سے حق کے زیادہ قریب ہوگا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ کیوں کہ معاملہ اسی طرح ہوا جس طرح آپ نے خبر دی تھی اور اس میں دونوں گروہوں .....اہل شام اور اہل عراق..... کے اسلام پر ہونے کا حکم ہے۔ ایسے نہیں جیسے رافضی اور بے وقوف جاہل سمجھتے ہیں کہ اہل شام کافر ہو گئے تھے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی حق کے زیادہ قریب تھے۔ یہی اہل السنتہ والجماعۃ کا مذہب ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف درست تھا۔ اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے اور وہ ان شاء اﷲ مأجور ہیں ۔‘‘ اسی طرح حافظ ابن کثیر مسجد نبوی کی بنیاد کے ضمن میں حدیث ’’ تقتلک الفئۃ الباغیۃ‘‘کہ اے عمار!تمھیں باغی گروہ قتل کرے گا‘ کی مناسبت سے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو اہل شام نے قتل کیا اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ’’ ولا یلزم من تسمیۃ أصحاب معاویۃ بغاۃ تکفیرھم کما یحاولہ جھلۃ الفرقۃ الضالۃ من الشیعۃ وغیرھم لانھم و إن کانوا بغاۃ فی نفس الامر فانھم کانوا مجتھدین فیما تعاطوہ من القتال ولیس کل مجتھد مصیباً بل المصیب لہ اجران والمخطئ لہ أجر‘‘ (البدایہ ص 218ج3) ’’اور اصحاب معاویہ کو باغی کہنے سے ان کی تکفیر لازم نہیں آتی جیسا کہ شیعہ کا گمراہ فرقہ وغیرہ یہ کہنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ گو نفس الامر میں باغی تھے مگر قتال کی کوشش میں وہ مجتہد تھے۔ اور ہر مجتہد مصیب نہیں ہوتا۔ بلکہ مصیب کو دو اجر ملتے ہیں اور مخطی کو ایک اجر۔‘‘ |