Maktaba Wahhabi

113 - 116
و تعریف میں وارد ہیں، اور آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق نسبتی و صہری اور قرابت داری اور ان کا سابقین او لین میں ہونا ثابت ہے۔ ان کے باہمی اختلاف و نزاع کی نوعیت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے مابین نزاع کی سی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عظمت پر نصوص قطعیہ ثابت ہیں ۔ اور یہی نصوص مانع ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے جو کیا اس پر ان کو طعن وملامت کی جائے، انہوں نے جو کیا للہ فی سبیل اللہ کیا، ہوائے نفسانی نزغہ شیطانی کی بنا پر نہیں تھا، اور اصحاب صفین میں بھی یہ امور قطعی طور پر ثابت نہیں ہیں اس لیے ان کے بارے میں بھی توقف اور سکوت لازم ہے ان آیات وا حادیث کی بنا پر جو عام طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ سب ایمانداروں کے حق میں آئی ہیں ۔ اللہ تعالی سے نجات و عفو کی امید رکھنی چاہیے۔" اختصاراً ہم نے مکمل فارسی عبارت نقل نہیں کی۔ البتہ اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں ذکر کر دیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے الفاظ میں " فسق اعتقادی" وغیرہ کے الفاظ سے تو حش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خود انہوں نے وضاحت فرمادی ہے کہ " درعرف اہل سنت خطائے اجتھادی نامند" فسق اعتقادی اہل سنت کے عرف میں خطاء اجتھادی ہے۔ (تحفہ ص 218 ) اسی طرح انہوں نے صاف صاف لکھا ہے کہ: وایں صحابہ کبار وام المؤمنین بالتخصیص قصد محاربہء حضرت امیر ندا شتند بلکہ از قتلہ عثمان استیفائے قصاص مخصوص داشتند۔ اورصحابہ کبار رضی اللہ عنہم یعنی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین نے خاص طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قصداً لڑائی نہیں کی، بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینا مقصود تھا۔ مزید فرماتے ہیں : وپر ظاہراست کہ این اشخاص عداوت حضرت امیر نداشتند و حرب ایشان بنا بر عداوت نبود محض برائے رفع فساد امت واستیفاء قصاص مقابلہ نمودند۔ (ص 623 )
Flag Counter