علامہ عبدالعزیز لکھتے ہیں ۔ والمحمل انہم کا نوا یطلبون الحق ولکن یصیب بعضھم في الاجتھاد ویخطئ بعضھم والمخطئ في الاجتھاد غیر ماخوذ بل ماجور و ھکذا جرت عادت السلف الصالحین بحمل افعال الصحابۃ علٰی مقاصد صحیحۃ۔(النبراس549 ) " یعنی علامہ تفتازانی رحمہ اللہ نے جو یہ کہا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جھگڑے اور لڑائیاں ہوئیں ان کے کئی محامل و تاویلات ہیں ۔ تو ان محاربات کا محمل یہ ہے کہ وہ حق کے طلبگار تھے، لیکن بعض اجتھاد میں راہ صواب کو پا لیتے اور بعض سے خطا ہو جاتی اور اجتھاد میں خطا کرنے والا قابل مواخذہ نہیں بلکہ اجر کا مستحق ہے، سلف صالحین کی یہی عادت رہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملات کو صحیح مقاصد پرمحمول کرتے تھے۔" مولانا عبدالعزیز نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں ایک مستقل رسالہ لکھا جسکا نام ہے " الناھیۃ عن طعن امیر المؤمنین معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اس رسالہ میں بھی موصوف رقمطراز ہیں : ’’ذکر کثیرمن المحققین ان ذکرہ حرام مخافۃ أن یؤدی إلی سوء الظن ببعض الصحابۃ ‘‘ (الناھیۃ ص ۵) ’’بہت سے محققین نے ذکر کیا ہے کہ مشاجرات صحابہ کاذکر حرام ہے اس بنا پر کہ یہ بعض صحابہ کے بارے میں سوء ظن کا باعث بنتے ہیں ۔، ، اسی طرح مزید لکھتے ہیں : ان مذھبنا اھل السنۃ و الجماعۃ ھو بزل الجھد فی تاویلھا واذا لم یمکن التاویل وجب ردا لروایۃ و وجب السکوت و ترک الطعن۔ ( ایضًا ص33 ) ’’ہمارا اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ مشاجرات کے بارے میں تاویل کی کوشش کی جائے، اگر تاویل ممکن نہ ہو تو اس قصہ کو رد کر نا اور خاموش رہنا اور طعن نہ کرنا واجب ہے۔‘‘ |