اور ایسے ہی جو لوگ بدعت کا اظہار کرنے والوں کو علم و شہادت کا امام بنائے پھرتے ہیں ؛ اور ان کی اس برائی کا انکار نہ ہی قطعی تعلقی سے کیا جائے اور نہ ہی کسی دیگر ذریعہ سے ؛ تو ان کا یہ قول بھی ضعیف ہے۔ ایسے جو لوگ بدعت کا اظہار کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں ؛ نہ ہی ان پر انکار کرتے ہیں ؛ اور نہ ہی قدرت ہونے کے باوجود اس کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ؛اور انہیں اس سے بہتر گردانتے ہیں ؛ ان کا قول بھی ضعیف ہے۔اس انسان پر لازم آتا ہے کہ جس برائی کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتے؛ اگر یہ قدرت رکھتا ہے تو اس برائی کا انکار کرے۔ مگر یہ انسان تو ایسا کرنے کو جائز نہیں سمجھتا۔ اور ایسے ہی جو کوئی ان لوگوں کے نماز دوبارہ پڑھنے کو واجب کہتے ہیں جنہوں نے اہل بدعت یا فسق و فجور میں مبتلا لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لی ہو؛ تو ان کا قول بھی ضعیف ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دوسرے حضرات نے ان میں سے ہر ایک گروہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں ؛ جب یہ لوگ ان پر حاکم بن گئے تھے۔ [1]یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں طے شدہ اصول ہے : جو نمازیں حکمران پڑھائیں ؛ ان کے پیچھے پڑھ لی جائیں بھلے وہ کسی بھی حال میں ہوں ۔ جیسا کہ ان کے ساتھ حج اور جہاد کیا جاتا ہے ۔ [2]یہ مسائل کئی مقام پر تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔
یہاں پر اتنا بیان کرنا مقصود ہے کہ اہل علم [علماء کرام ] کا اتفاق ہے کہ اہل قبلہ کے فرقوں میں رافضیوں سے بڑھ کر جھوٹا فرقہ کوئی بھی نہیں ۔‘‘جو شخص کتب جرح و تعدیل ؛ اور راویوں کے حالات زندگی کو بغور پڑھنے کا عادی ہے ؛ جیساکہ یحییٰ بن سعید القطان ‘ علی المدینی ؛ یحی بن معین‘ امام بخاری‘ ابو زرعہ ؛ ابو حاتم الرازی‘ امام نسائی ‘ ابو حاتم بن حبان ‘ ابو احمد بن عدی ‘ دار قطنی ؛ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی؛ یعقوب بن سفیان الفسوی؛ احمد بن عبد اللہ بن صالح العجلی ؛العقیلی ؛ محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی ؛حاکم نیشاپوری ؛ حافظ عبد الغنی بن سعید المصری اور ان جیسے معروف اہل علم ‘مصنفین اور ماہرین تنقید نگار رحمہم اللہ ؛ اور اسناد کے احوال کے جانکار سبھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ:
’’ اہل علم کے نزدیک لوگوں کے ہر طبقہ میں شیعہ زیادہ ترجھوٹ میں معروف ہوتے ہیں ۔‘‘[3]
یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ جیسے لوگوں نے پرانے شیعہ ‘جیسا کہ عاصم بن ضمرہ ‘ حارث الاعور؛ عبد اللہ
|