’’ میں نے رافضیوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹی گواہی دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
یہ معنی اگرچہ صحیح ہے؛ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے الفاظ ثابت ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی وہی اصول بیان کیا ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں نے بیان کیا ہے کہ جو لوگ جھوٹ بولنے میں مشہور ہوں ان کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی ؛ جیسا کہ خطابیہ ۔ [1]
جھوٹ میں معروف لوگوں کی گواہی رد کرنااہل فقہ علمائے کرام کے مابین متفق علیہ مسئلہ ہے۔ جب کہ باقی تمام اہل بدعت گمراہ خواہشات کے پجاری فرقوں کی گواہی قبول کرنے کے متعلق اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : ان کی گواہی مطلق طور پر قبول کی جائے گی۔ اور بعض کہتے ہیں : مطلقاً رد کی جائے گی۔ اور بعض کہتے ہیں : جب ایسی گواہی ہو جس میں ان کی بدعت کی طرف دعوت ہو تو رد کی جائے گی؛ ورنہ قبول کر لی جائے گی۔ محدثین کے ہاں یہی تیسرا قول غالب طور پر مقبول ہے۔ وہ ایسی روایت نقل نہیں کرتے جس میں بدعت کی طرف دعوت ؛ یا اس پر شہادت ہو۔یہی وجہ ہے کہ ان کی امہات کتب جیسے صحاح ؛ مسانید ؛ سنن میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے جو ایسے راوی سے ہو جو اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے میں مشہور ہو۔ اگرچہ ان میں ایسے راوی ضرورپائے جاتے ہیں جن میں کسی نہ کسی حد تک بدعت کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ جیسے خوارج ؛ مرجئہ ؛ شیعہ؛ قدریہ وغیرہ۔ اس لیے کہ ان سے کوئی ایسی روایت منقول نہیں ہے جو ان کے فسق کی طرف دعوت دیتی ہو۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ لیکن جو کوئی اپنی بدعت کا اظہار کرے اس کا انکار کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو کوئی اپنی بدعت کو چھپاتا ہو اور اسے خفیہ رکھتا ہو۔ جب انکار کرنا واجب ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ اس سے قطع تعلقی کی جائے حتیٰ کہ وہ اپنی بدعت کے اظہار سے باز آجائے۔ اور قطع تعلقی میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے علم حاصل نہ کیا جائے؛ اور نہ ہی اس کے کلام سے دلیل پیش کی جائے۔
ایسے ہی اہل فجور اور اہل بدعت کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں بھی فقہائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے۔ان میں سے بعض مطلق طور پر اس کی اجازت دیتے ہیں ؛ اور بعض مطلق طور پر منع کرتے ہیں ۔اور اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز اس وجہ سے منع نہیں ہے کہ ان کی اپنی نماز نہیں ہوتی۔لیکن اس کی وجہ یہ ہے
|