درمیان فرق ہوجاتا ہے۔ وگرنہ یہ بات تو معلوم ہے کہ سنگترہ اور سیب کا اپنی مختلف صفات سے متصف ہونا بذاتِ خود ثابت شدہ معاملہ ہے چاہے ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان کا ذائقہ ان کا رنگ نہیں ہوتا اور رنگ خوشبو نہیں ہوتی۔ یہ سب ایسی مختلف صفات ہیں جو اپنے حقائق سمیت قائم ہیں اگرچہ ان کا موصوف ایک ہی ہے۔
پھر صفات کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک قسم وہ ہے جس کے لیے زندگی ضروری نہیں ہے، مثلا: ذائقہ، رنگ اور خوشبو۔ دوسری قسم وہ ہے جس کے وجود کے لیے زندگی ضروری ہے۔ مثلا: علم، ارادہ، سماعت اور بصارت۔
پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھتیں ۔ لہٰذا رنگ، خوشبو اور ذائقہ سے اسی چیز کو متصف کیا جائے گا جس میں یہ صفات موجود ہوں گی۔
جبکہ دوسری قسم کے بارے میں مناظرین کا اختلاف ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ انسان کی صفت بیان کی جاتی ہے کہ وہ عالم ہے، قادر ہے، ارادہ رکھنے والا ہے جبکہ علم اور ارادہ نہ پشت پر ہوتا ہے ، نہ پیچھے ہوتا ہے، بلکہ وہ دل میں ہوتا ہے۔ تو ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: زندگی سے مشروط اعراض کا حکم اپنے محل سے متعدی ہوتا ہے۔ اگر مجموعہ میں سے کسی ایک جز میں بھی وہ عرض ہوگا تو پورے مجموعہ کو اس سے متصف کیا جائے گا۔ معتزلہ وغیرہ میں سے کچھ لوگ ایسا ہی کہتے ہیں ۔ جبکہ ان میں بعض کہتے ہیں : اس صفت سے متصف موصوف دل میں ایک علیحدہ ٹکڑا ہے۔ انہی میں سے کچھ اور لوگوں کا کہنا ہے : بلکہ اس کا حکم اپنے محل سے آگے نہیں بڑھتا۔ بدن کے ہر حصہ میں زندگی، علم اور قدرت ہوتی ہے۔
ان میں سے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان اعراض کے علیحدہ جوہر کے ساتھ قائم ہونے کیلیے مخصوص جگہ کی کوئی شرط نہیں ہے جیساکہ اشعری اور ان کے مالکی، شافعی اور حنبلی پیروکار وغیرہ کہتے ہیں ۔انہوں نے اس موقف کی بنیاد علیحدہ جوہر کے ثبوت پر رکھی ہے۔ جبکہ یہ کمزور بنیاد ہے۔ کیونکہ اس کا قائل ہونا باطل ہے۔ جیسا کہ یہ بات اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان کی جاچکی ہے۔
بعض ارسطو کے پیروکار زبردستی کے فلسفی یہ دعوی کرتے ہیں کہ انسان میں علم کا محل ناقابل تقسیم ہے۔ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس ناطقہ میں علم ایک چیز کو دوسری چیز سے ممتاز نہیں کرسکتا۔ نہ وہ متحرک ہے، نہ ساکن ہے۔ نہ وہ چڑھتا ہے، نہ اترتا ہے۔ نہ وہ بدن اور دنیا کی کسی اور چیز میں داخل ہوتا ہے اورنہ اس سے نکلتا ہے۔ نہ کسی چیز کے قریب ہوتا ہے، نہ دور ہوتا ہے۔
پھر ان میں سے کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ نفس ناطقہ کلیات جانتی ہے، جزئیات نہیں جانتی۔ جیسا کہ ابن سینا وغیرہ کا یہ موقف بیان کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں ان کا سب سے زیادہ اعتماد ان معلومات پر ہے جو ناقابل تقسیم ہے، لہٰذا ان کا علم بھی ناقابل تقسیم ہے کیونکہ علم معلوم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس لیے علم کا محل بھی ناقابل
|