اور کبھی کبھار کسی دوسرے اوقات میں بھی وہاں چلے جاتے ہیں ۔ اور پھر ان میں سے کوئی ایک آواز لگاتا ہے ‘ اور کہتا ہے : ’’ اے ہمارے آقا! اب باہر تشریف لائیے ۔‘‘[1]
اس موقع پر اسلحہ کی نمائش بھی کرتے ہیں ؛ حالانکہ وہاں پر ان سے لڑنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو برابر وہاں پر کھڑے رہتے ہیں اور نماز بھی نہیں پڑھتے ۔ اس لیے کہ اسے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نماز میں ہو اور امام نکل آئے؛ اور اسے امام کی خدمت کا موقع نہ مل سکے۔
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو وہاں سے دور ہونے کی بنا پر؛ جیسے کہ مدینہ طیبہ سے ؛ رمضان کے آخری عشرہ میں سامراء کی طرف منہ کرکے چلاتے ہیں ‘ اور بلند آواز میں امام کو نکلنے کے لیے دہائیاں دیتے ہیں ۔
فرض کریں اگر یہ مان لیا جائے کہ امام کسی غار میں موجود ہے ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ نے نکلنے کا حکم دیدیا تو وہ نکل کر ہی رہے گا ‘ خواہ یہ لوگ اسے آوازیں دیں یا نہ دیں ۔اور اگر اسے اجازت نہ ملے تو وہ ان کی بات ہر گز نہیں مانے گا۔ اور جب امام نکلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائیں گے ‘ اور اس کے لیے سواری کا بھی بندوبست فرمائیں گے۔ اور اس کے معاون و مدد گار پیدا فرمائیں گے۔مگر پھر بھی وہاں پر کھڑے ہونے والے صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی تمام کوششیں اکارت ہوگئی ہیں ‘ اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان لوگوں کو معیوب گردانا ہے جو ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں ‘ جو ان کی پکار کو قبول نہیں کرتے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍOاِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ﴾ [فاطر۱۳۔۱۴]
’’وہ اللہ تمھاراپروردگار ہے، اسی کی بادشاہی ہے اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے مالک نہیں ۔اگر تم انھیں پکارو تووہ تمھاری پکار نہیں سنیں گے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمھاری درخواست قبول نہیں کریں گے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکا ر کر دیں گے اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا ۔‘‘
|