امامیہ اثنی عشریہ ان سے بہت زیادہ بہتر ہیں ۔ بلاشک و شبہ امامیہ میں اپنی انتہائی جہالت اور گمراہی کے باوجودایسے لوگ موجود ہیں جو ظاہری اور باطنی طور پر مسلمان ہیں ۔وہ زندیق اور منافق نہیں ہیں ۔ لیکن وہ جہالت کی وجہ سے گمراہی میں جا پڑے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگے۔ جبکہ اسماعیلیہ کے بڑے ائمہ جوکہ اس دعوت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں ؛ وہ باطنی زندیق اور منافق ہیں ۔ اور ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کے کچھ عوام جنہیں ان کے باطن کی حقیقت کا علم نہ ہو؛ وہ چند لوگ مسلمان ہوسکتے ہیں ۔
جہاں تک سابقہ ذکر کردہ مسائل کا تعلق ہے تو ان میں سے کچھ مسائل میں امامیہ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی شریک ہیں ؛ سوائے انبیاء کرام کی شان میں غلو کے مسئلہ میں ؛ اس میں کوئی ایک بھی ان کا ہمنوا نہیں ہے ۔کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول نہیں ہوسکتی۔ہمارے علم کی حدتک کوئی ایک بھی اس مسئلہ میں ان کا ہمنوا نہیں ۔ ہاں ؛ اگر کوئی جاہل صوفی ایسی بات کہتا ہو؛ تو [یہ اور بات ہے؛ کیونکہ]ان کے اورروافض کے مابین غلو اور جہالت اور بلاصحت بات کے سامنے سرتسلیم خم ہونے کی مشترکہ اقدار پائی جاتی ہیں ۔یہ دونوں گروہ اس مسئلہ میں نصاری سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ اور کبھی کبھار کوئی غالی مصنف مسئلہ عصمت میں فقہ میں کوئی ایسی بات لکھ دیتا ہے ۔
اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ائمہ پر ایمان لانا فرض کیا ہے؛ اوریہ کہ دین صرف ان سے سیکھا جائے دوسروں سے نہیں ؛ پھر ان کی بابت معصوم عن خطا ہونے کا عقیدہ ؛ بلاشک و شبہ یہ دونوں ایسی باتیں ہیں جو کوئی انتہائی جاہل اور خواہشات نفس میں ڈوبا ہوا انسان ہی کہہ سکتا ہے۔ جسے دین اسلام کی معرفت ہو؛ اور ان لوگوں کے احوال بھی جانتا ہو؛ تو وہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اضطراری طور پران لوگوں کے عقیدہ کا باطل ہونا جانتاہے۔ لیکن جہالت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس نے اس مسئلہ پر یہاں کوئی دلیل ذکر نہیں کوئی ؛ سوائے اپنے مذہب کی حکایت بیان کرنے کے؛ تو ہم نے بھی اس کے رد کو مؤخر کردیا۔
[1]
|