تعریضات تھیں ۔اورحضرت موسی علیہ السلام اس آدمی کے قتل کردینے کا ذکر کریں گے۔[1]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ ان کے کمال فضل؛خوف اور عبودیت اور ان کی تواضع میں سے ہے۔ اس لیے کہ توبہ کرنے کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی عبودیت کامل ہوجائے ؛اوران کا خوف و خضوع بڑھ جائے ؛ پس اللہ تعالیٰ اس وجہ سے ان کے درجات کو مزید بلند کردیں ۔ پس اس چیز کو ممتنع کہنا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتے ہیں ؛ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت کہ اس ہستی کے لیے شفاعت کا سبب بن جائے جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس کے امتناع کے قائل ہیں ؛ ان کے نزدیک حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام ان سے افضل ہیں ۔ مگرہم نے ان کی غلطی بیان کی ہے۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمادیں گے: ’’ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں ؛ پس تم اس ہستی کے پاس جاؤ؛ جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔اور مسیح علیہ السلام اس مقام محمود سے پیچھے ہوجائیں گے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ان فضائل میں سے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ۔ ان سب پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ شفاعت سے پیچھے رہ جانا ان کے موجودہ مقام میں نقص کا موجب نہیں تھا۔ بلکہ جب انہیں اس مقام محمود کا علم ہوا؛ جو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندے کے لیے کمال مغفرت ؛ اور بندے میں کمال عبودیت کا مطالبہ کرتا ہے؛ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے؛ جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے تھے۔ اسی لیے مسیح علیہ السلام کہیں گے: آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں ؛ وہ ایسی ہستی ہیں جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے پچھلے گناہ بھی معاف
|