غیر میں پیدا کیا ہے اور نہ ہی یہ متصور ہوسکتا ہے کہ اس کی رنگت ایسے رنگ سے ہے جو اس نے کسی اور میں پیدا کیا ہے۔اور نہ اس کی ایسی خوشبو کی سمجھ آتی ہے جو اس نے اپنے غیر میں پیدا کی ہے۔ یہ بات بھی نامعقول ہے کہ وہ ایسا ارادہ رکھتا ہے جو اس نے اپنے غیر میں پیداکیا، اسی طرح ، محب، راضی، غصہ والا، ناراضگی والا ہونا سمجھ لیں ؛ جو اس نے اپنے غیر میں یہ صفات پیدا کی ہیں ۔
منکرین صفات اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت بیان کرتے ہیں جو اس کے ساتھ قائم نہیں ۔کبھی وہ صفات کسی دوسرے میں تخلیق شدہ ہوتی ہیں ۔ مثلاً کلام اور ارادہ۔ اور بسااوقات نہ اس کے ساتھ قائم رہتی ہے نہ اس کے غیر کے ساتھ مثلاً علم اور قدرت وغیرہ یہ بھی غیر معقول ہے۔ زندہ وہی ہے جس میں حیات ہے عالم وہ ہے جس میں علم ہے، اسی طرح بالاتفاق متحرک وہ ہے جس میں حرکت ہے۔ عقل اس کا انکار کرتی ہے کہ فاعل اسے کہا جائے جس کے ساتھ فاعل کا فعل قائم نہ ہو۔
[اشعریہ اور ان کے ہم خیال جیسے ابن عقیل وغیرہ نے مانا ہے کہ فاعل کے ساتھ فعل قائم نہیں ہوتا؛ جیسا کہ عادل اس کے ساتھ عدل قائم نہیں ہوتا۔ خالق اور رازق کے ساتھ خلق ورزق قائم نہیں ہوتے۔ اسی سے معتزلہ نے ان کے خلاف دلیل لیتے ہوئے کہا ہے جس طرح خالق، رازق کے ساتھ عدل خلق اور رزق (قائم ) نہیں اس طرح وہ نہ عالم وقادر ہے ؛اور نہ متکلم ہے ۔ سلف رضی اللہ عنہم اور جمہور اہل سنت اس اصل کو نہیں مانتے اسی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر حضرات نے کہا ہے: اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں ۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
((أعوذ بکلمات اللّٰہ تعالیٰ التامات التی لا یجا وزھن برٔ ولا فاجر)) [1]
’’ پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلمات کی جن سے کوئی نیک یا بد آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اللھم انی اعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وبک منک لا احصی ثناء علیک۔)) [2]
’’اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضامندی کے وسیلہ سے پناہ پکڑتا ہوں ؛ اور تیری سزا سے تیری معافی کے وسیلہ سے ؛ اور تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ؛ میں تیری حمد شمار نہیں کرسکتا۔‘‘
|