بعض نے ہر دو امور میں ان کے ساتھ اختلاف کیاہے؛اور کہا کہ نہ تو یہ جسم ہے اورر نہ (دوسرا )اور بعض نے اس کا جسم ہونا تسلیم کیا ہے؛مگرنقطہئاختلاف یہ ہے کہ قدیم جسم نہیں ہو سکتا۔
حقیقت ِحال تو یہ ہے کہ لفظ ’’جسم ‘‘میں لفظی اور معنوی اختلافات ہیں ۔اور لفظی اختلافات عقلی معانی میں معتبر نہیں ۔رہے معنوی اختلافات جیسے کہ لوگوں کا اُن امور میں اختلاف ہے جن کی طرف اشارۂ حسیہ کیا جاتا ہے ؛ کیا ایسے امور کے بارے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ جواہرِ فردہ سے مرکب ہوں یا مادہ اورر صور ت سے یا ان میں سے کوئی بھی واجب نہیں ؟پس معتزلہ اور اشعریہ اور ان کے اکثر موافقین اہل نظر نے تو کہا ہے کہ ایسے مشار الیہ جسم کے لیے جواہر فردہ سے مرکب ہو۔ پھر ان کے جمہور تو اس بات کے قائل ہیں کہ وہ متناہی جواہر سے مرکب ہے اور بعضو ں نے تو کہا کہ غیر متناہی جواہر سے مرکب ہے۔[1]
بہت سے اہل نظر فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ جسم کا مادہ اور صورت سے مرکب ہونا واجب ہے۔ پھربعض فلاسفہ نے تمام اجسا م میں سے اس کو مطرد اور عام کیا ہے؛ جیسے کہ ابن سینا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ: یہ صرف اجسام عنصریہ میں سے ہے نہ کہ فلکیہ میں اور اس کا عقیدہ ہے کہ یہ ارسطو اور قدمہ کا قول ہے۔
بہت سے مصنفین صرف یہی دو قول ذکر کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے صرف ان کتابوں کا مطالعہ کیاہو ؛ تو اسے صرف انہی دونوں قولوں کوپتہ ہوتا ہے ۔
قولِ ثالث : جمہورِ علماء اور اکثر اہل نظر کہتے ہیں کہ وہ مرکب نہیں ۔ نہ اِس سے اور نہ اُس سے۔ اوریہ ابن کلاب ،امام اشعری ،بہت سے کرامیہ ،ہشامیہ ،نجاریہ اور ضراریہ کا قول ہے۔[2]
پھر ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ جسم تقسیم کے ساتھ جزء لا یتجزأ کی طرف منتہی ہو جاتا ہے جیسے کہ شہرستانی اور ان کے علاوہ دیگر کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : وہ غیر متناہی حد تک انقسام کو قبول کرتا ہیحتی کہ وہ ایک انتہائی چھوٹا جسم ہو جائے جس کے بعض کا بعض سے تمیز مستحیل ہو ۔یعنی جدا ہونا محال ہو۔ یہ عقیدہ بعض کرامیہ کا ہے۔
|