بھی دعوی کی بہ نسبت زیادہ ممکن ہے۔
اگر شیعہ اقوال و آثار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب ثابت کریں تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں وارد شدہ آثار اکثر و اصح ہیں ۔ اور اگر شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل پر تواتر اور صحت روایات کا دعوی کریں ؛ تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں واردتواتر زیادہ صحیح تر ہے۔اوراگر شیعہ نقل صحابہ کا دعوی کریں تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں منقول آثار بہت زیادہ ہیں ۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ شیعہ دعوی کرتے ہیں سوائے چند افراد کے باقی تمام صحابہ مرتد ہوچکے تھے[1]۔تو پھر ان کے اس قول کے مطابق ان میں سے کسی ایک کی روایت کسی صحابی کے فضائل ومناقب میں کیونکر قابل اعتماد ہوسکتی ہے۔ اور رافضیوں میں کوئی زیادہ صحابی نہیں تھے جن سے تواتر کیساتھ نقل کریں [بلکہ رافضیوں میں کوئی صحابی نہیں تھا جس سے یہ روایت نقل کریں ]۔
ان کے ہاں نقل روایت کے تمام طرق منقطع ہیں ۔ اگر یہ لوگ اہل سنت کی راہ پر نہ چلیں تو کوئی روایت پیش ہی نہ کرسکیں ۔ جیسے نصاری اگر مسلمانوں کی روش اختیار نہ کریں تو ان کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کو ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فقیہ تھے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھے۔ یا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فقہیات کے عالم تھے اور عمر رضی اللہ عنہ فقہ سے نابلد تھے۔یا حضرت علقمہ و اسود رضی اللہ عنہماتوفقیہ تھے ؛ مگر عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ نہیں جانتے تھے۔یا اس طرح کسی چیز کے لیے وہ حکم ثابت کرنا جو اگرکم تر درجہ چیز میں ثابت کیا جائے تو اس سے بڑے درجہ میں خود بخود ثابت ہوجائے۔ یہ تناقض کا مسلک اہل علم وعدل کے ہاں ممتنع ہے ۔ [یہ ظلم و جہل کی راہ ہے اور شیعہ اسی راہ کے سالک ہیں ]۔رافضی لوگوں میں سب سے بڑے گمراہ
|