Maktaba Wahhabi

405 - 779
سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ یہ دونوں کے حق میں صاف جھوٹ ہے۔اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے قبل کبھی اپنے لیے خلافت و امارت کا مطالبہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کبھی خلافت و امارت کا مطالبہ کیا؛ چہ جائے کہ وہ ناحق اس پر قبضہ کرلیتے۔ باقی ماندہ دو قسموں میں سے پہلی قسم کے وہ لوگ شمار کئے ہیں جو طلب دنیا کے لیے دوسروں کی تقلید کا دم بھرتے تھے۔ اور دوسرے وہ جو کوتاہ بینی کے پیش نظر دوسروں کے پیرو تھے۔ حق کی معرفت حاصل کر کے اس کی پیروی کرنا انسان کا فرض ہے۔ یہی وہ صراط مستقیم ہے ‘جو کہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپناانعام کیا۔ان میں انبیاء کرام علیہم السلام ؛ صدیقین ؛ شہداء اور صالحین شمار ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کاراستہ نہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کا راستہ جو راہ ِ حق سے گمراہ ہوئے اور اس راہ سے بھٹک گئے جس راہ کی طرف ہدایت ملنے کی دعا ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہیں ۔ صحیح سند کیساتھ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہودوہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا۔ اور عیسائی گمراہ ہیں ۔ یہود نے حق کو پہچانا مگر اس کی اتباع نہ کی ۔‘‘[1] ترک اتباع کا سبب حسد و کبر؛ غلو اور خواہشات نفس کی پیروی تھی؛ اس لئے وہ مورد غضب الٰہی ہوئے۔ نصاریٰ حق کی معرفت حاصل نہ کر سکے ۔ وہ جو کچھ اخلاقیات ‘عبادات اور زہد کرتے ہیں ‘ اس کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ۔بلکہ ان میں جہالت ؛ غلو‘ بدعات؛ اور شرک پایاجاتا ہے۔ اس لیے وہ جادہ مستقیم سے بھٹک گئے۔اگرچہ ان دونوں امتوں میں سرکشی اور بغاوت کا عنصر پایا جاتا ہے ؛ تاہم یہود میں یہ عنصر زیادہ غالب ہے۔ اورگمراہی نصاری پر غالب ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی صفات میں سے حسد و تکبر ؛ اتباع ہوی ؛ سرکشی؛ فساد اور زمین پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں کو شمار کیا ہے ۔ فرمایا: ﴿اَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ﴾ ’’لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا۔‘‘[بقرہ ۸۷] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter