موت مرا۔‘‘ [1]
اورروایت کے یہ الفاظ ہیں :’’بیشک جو کوئی جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوا اور پھر اسی پر اس کی موت آگئی تو جاہلیت کی موت میں مرا۔‘‘
پس صاحب ِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم کے خلاف خروج اورمسلمان کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کو حرام ٹھہرایا ہے ۔ اور حاکم میں برائیاں دیکھ کر ان پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ حکم کسی متعین حاکم ؛ متعین امیر یا جماعت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت کی بنا پر غصہ کرتے ہوئے ؛اورعصبیت کی طرف بلایا؛ یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا ؛تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔‘‘ [2]
پس اس حدیث مبارک میں اطاعت گزاری سے خروج اور جماعت سے علیحدگی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اور اسے جاہلیت کی موت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اہل جاہلیت کا کوئی بڑا سربراہ نہیں ہوا کرتا تھا جو انہیں باہم جمع کرسکے۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ کسی نہ کسی کو سربراہ بنالینے کا حکم دیا کرتے تھے۔ حتی کہ آپ
|