سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ: ’’اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو خلیفہ بنانے والے ہوتے تو کسے یہ منصب تفویض فرماتے؟‘‘ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواباً فرمایا:’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو۔‘‘[1]
محدث ابن حزم رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’یہ محال ہے کہ حضرت عمر وعائشہ رضی اللہ عنہما کا قول اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم دونوں مرفوع احادیث کے خلاف ہوں ۔اور اس کے مقابلہ میں حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہماسے ایسی موقوف روایات پیش کی جائیں جن سے کوئی واضح اور ظاہری حجت نہ حاصل ہوتی ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اس روایت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر کیے جانے کا حکم مخفی رہا۔جیسے دیگر کئی ایک احکام شرعی آپ مخفی رہے ‘جیسے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنے کا حکم؛ وغیرہ ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں کوئی تحریری دستاویز تحریر نہیں کی تھی۔‘‘ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ بنائے جانے کے لیے کوئی تحریری دستاویز موجود نہ تھی؛مگر اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت موجود تھی۔
کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ : حجت تو ان دونوں صحابہ کی روایت میں ہے ‘ ان کے قول میں نہیں ؟
[[امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس ضمن میں فرماتے ہیں :]]
’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر کئے جانے پر اثبات میں کلام دیگر کئی مواقع پر بڑی تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں پر مقصود آپ کی خلافت کے بارے میں لوگوں کی آراء کا بیان کرنا ہے ۔ کیا اس بارے میں کوئی نص خفی یا جلی وارد ہوئی ہے ؟ اور اس سے خلافت ثابت ہوتی ہے؟یا پھر اہل حل و عقد کے اختیار و انتخاب سے خلیفہ مقرر کئے گئے ؟
یہ بات بہت واضح کی جاچکی ہے کہ بہت سارے سلف و خلف نے نص جلی یا خفی کا کہا ہے ۔ توپھر اس طرح رافضی کی اہل سنت و الجماعت پر قدح باطل ہوگئی۔رافضی کا کہنا کہ[ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ]: ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو امام مقرر نہیں کیا تھا اور آپ بلا وصیت فوت ہو گئے۔‘‘[مطلق طور پر یہ بات کہنا غلط ہے]
|