افراد کے تعاقب سے عبارت ہے (یعنی افرادکا یکے بعد دیگرے وجود میں آنا )اور یہ ایسا امر ہے کہ اس کے ساتھ مجموعہ یعنی کل مختص ہے اور ایک فرد اس کے ساتھ موصوف نہیں ہوسکتا اور جب مجموعہ کے لیے باہم اجتماع (افراد کا اجتماع )کے بسبب کوئی ایسا حکم ثابت ہو جس کے ذریعے وہ افراد کے حکم کے مخالف ہو تو مجموعہ کا اپنے بقیہ ا احکام میں افراد کے ساتھ مساوات واجب نہیں ہوتا اور بالجملہ وہ صفات جس سے افراد کو موصوف کیا جاتا ہے بسا اوقات اس سے مجموعہ بھی موصوف ہوتا ہے اور بسا اوقات موصوف نہیں ہوتا پس فردِ واحد کے حدوث سے نوع کا حدوث لازم نہیں آتا الا یہ کہ اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ مجموعہ بھی ان افراد کی صفت کے ساتھ موصوف ہے ۔
اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جب اس ایک فرد کو اس دوسرے فرد کے ساتھ ملانے سے وہ حکم جو اس فرد کے لیے تھا اگر وہ متغیر ہوگا تو پھر مجموعہ کا حکم افراد کا نہیں ہوگا اور اگر وہ حکم جو فرد کے لیے تھا وہ انضمام اور اتصال کے وجہ سے متغیر نہیں ہوتا توپھر مجموعہ کا حکم افراد کا حکم ہوگا،اول کی مثال جب ہم اِس جزء کو دوسرے جزء کے ساتھ ملا لیتے ہیں تو مجموعہ اکثر ہو جاتا ہے یا اقل یا ہر ہر فرد کے اکیلے حالت سے اعظم اور بڑا ہو جاتا ہے پس ان جیسے احکام میں مجموعہ کا حکم افراد کا حکم نہیں ہے یعنی کثرت میں ،طول اور عظمت میں اور اگر کہا جائے کہ یہ آج کا دن مثلاً اس کو طویل کی صفت کے ساتھ موصوف کیا جائے تو لازم نہیں آتا کہ اس کا جزء بھی طویل ہو اسی طرح جب یہ کہا جائے کہ یہ شخص یا یہ جسم طویل یا ممتد ہے یا کہا جائے کہ یہ نماز بڑی لمبی ہے یا کہا جائے کہ یہ نعمت اللہ کی دائم ہے تو لازم نہیں آتا کہ اس کا ہر ہر جزء بھی دائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا﴾(سورۃ رعد ۳۵ )
’’ان کا پھل بھی دائمی ہے اور سایہ بھی۔‘‘
اور کھانے کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء تو دائمی نہیں ہوتا؛اسی طرح ایک حدیث صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے:
’’ اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جو زیادہ دوام کے ساتھ ہو۔‘‘[1]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دوام کی صفت کے ساتھ ہوتا تھا۔ ‘‘[2]
|