اور اضافات اور سلبی امور کا تعدد بالاتفاق اس کے لیے ثابت ہے ۔
اگر یہ بات فرض کی جائے کہ یہ صفات کا تعدد ہے تو یہ صفات کے ثبوت کے قول کو مستلزم ہے اور یہ بات حق ہے اور ان کا یہ کہنا کہ پھر تو یہ مرکب بن جائے گا اور ترکیب تو ممتنع ہے تو بہ تحقیق ہم نے اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ پر کئی اعتبارات سے اس کے فساد کو بیان کر دیا ہے اور ہم نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ ترکیب ، افتقار (احتیاج)، جزء اورغیر کے الفاظ مشترک اور مجمل الفاظ ہیں اور اس معنی پریہ لازم نہیں آتے جس کی نفی پر دلیل دلالت کرتی ہے اور یہ اس معنی پر لازم آتے ہے جس کی دلیل نفی نہیں کرتا بلکہ دلیل اس کو ثابت کرتا ہے یعنی اللہ کے لیے اس معنی پر یہ ثابت ہوتے ہیں جس معنی پر یہ اس کی ذات کے لیے ممتنع نہیں ہے ۔
مقصود تو یہاں یہ ہے کہ موجب بالذات کی اگر اس طرح تفسیر کی جائے تو یہ باطل ہے رہا یہ کہ اگر موجب بالذات کی تفسیر اس طرح کی جائے کہ وہ ایک ایسی ذات ہے جواپنی مشیت اور قدرت کے ساتھ اپنے مفعول کے لیے موجب اور محدث ہے تو یہ معنی اس کے فاعلِ مختار ہونے کے منافی نہیں بلکہ وہ فاعل بالاختیار بھی ہوگا اور موجب بالذات بھی ہوگا اور ا پنے مشیت اور قدرت کے ساتھ بھی موجب ہوگا ۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ موجب بالذات دونوں معانی کا احتمال رکھتا ہے ،ایک معنی اس امر کے منافی نہیں ہے کہ وہ اپنی مشیت اور قدرت کے ساتھ فاعل بنے اور دوسرا اس کے منافی ہے کہ وہ اپنے مشیت اور قدرت کے ساتھ فاعل بنے تو جوشخص اس بات کا قائل ہوا کہ قادر کوئی بھی فعل صادر نہیں کرتا مگر جواز اور امکان کے طریقے پر جس طرح کہ قدریہ اور جہمیہ میں سے بعض کا یہ قول ہے تو وہ اختیا رکے ساتھ فعل کے صادر ہونے کو ایجاب کے منافی قرار دیتا ہے جو کہ کسی بھی طریقے سے اس کے ساتھ جمع نہیں ہوتا ۔
وہ یہ کہتے ہی کہ کوئی ذات قادرِ مختار صرف اس وقت بنتا ہے جب وہ امکان اور جواز کے طریقے پر فعل صادر کرے نہ کہ وجوب کے طریقے پر اور اہل سنت اور دیگر جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ قادر ذات وہی ہے کہ اگر وہ چاہے تو کرے اور اگر چاہے تو نہ کرے لیکن جب وہ اپنی قدرت کے ساتھ فعل کو کرنا چاہے تو اس کے فعل کا وجود لازم ہوتا ہے پس جو اللہ چاہتے ہیں وہ موجود ہوتا جو نہیں چاہتے وہ نہیں موجود ہوتا اس لیے کہ یقیناً وہ ان تمام اشیا پر قادر ہیں جس کو وہ چاہتے ہیں اورقدرتِ تامہ اور مشیتِ لازمہ کے ساتھ فعل کا وجود واجب ہے اسی وجہ سے تو اقوال تین ہوگئے :
پس فلاسفہ جو ہیں ایسے موجب بالذات کے قائل ہیں جو مجردہ عن الصفات ہے۔
یا ایسے موصوف کے قائل ہوئے جس کا موجب معین اس کے ساتھ ازلا ًو ابداً مقارن ہے۔
معتزلہ میں سے قدریہ اور دیگر جہہمیہ میں سے اور جو ان کے موافق ہیں وہ ایسے فاعلِ مختار کے قائل ہیں جو جواز اور امکان کے طریقے پرا فعال صادر کرتا ہے نہ کہ وجود کے طریقے پر پھر ان میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے
|