ارادے کے لازم آئے گا اور یہ تو اس کے ارداے کے بغیر حوادث کے حدوث اور پیدا ہونے کا تقاضا کرتا ہے پس وہ فاعل مختار نہیں بنے گا کیونکہ ارادہ حادثہ اگر اس کا فعل ہے تو بتحقیق وہ بغیر ارادے کے حادث ہوا ہے اور اگر وہ اس کا فعل نہیں اور پھر بھی وہ پیدا ہوا ہے تو حادث ہے بغیر اس کے فعل کے اور یہ ممتنع ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ اس کے بارے میں تمام لوگوں نے جمہور نے معتزلہ بصرئین اور معتزلہ پر نکیر کی ہے پس ان کے اس قول میں کہ اللہ کا ارادہ حادث ہے بغیر ایک دوسرے ارادے کے اور یہ کہ اللہ کا ارادہ بغیر کسی محل کے قائم ہے ۔
اگر کہا جائے کہ بلکہ ازل سے اس کی ذات کے ساتھ حوادث کو وجود دینے والے ارادے قائم ہیں جس طرح کہ یہ بات وہ لوگ کرتے ہیں جو محدثین میں سے ہیں اور وہ فلاسفہ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ازل سے متکلم ہیں جب چاہیں اور وہ ازل ہی سے ان تمام اشیاء کوپیدا کرنے والے ہیں جن کے وجود کو وہ چاہیں تو کہا جائے گا کہ اس تقدیر پر تو پھرکسی مفعولِ قدیم کے لیے کوئی ایسا ارادہ قدیمہ نہیں پایا گیا اور اگر کہا جائے کہ اس میں یہ بات اور یہ دوسری بات یہ دونوں جمع ہیں تو کہا جائے گا کہ یہ تو ممتنع ہے کیونکہ فاعل کے کسی مفعولِ معین کا بالخصوص فاعل مختار کا اس کے ساتھ ملازم ہونا یہ ممتنع ہے اور مفعول بالارادہ ہونے کی جہت سے تو ضروری ہے کہ وہ ارادہ اس پر مقدم ہو اور یہ کہ وہ ثابت ہو یہاں تک کہ وہ وجود میں آجائے یعنی اس کے مفعول کے وجود تک وہ ارادہ ثابت رہے بلکہ ایسا تو ہر مفعول میں مسلم ہے اور اس جہت سے کہ اس کی ذات کے ساتھ جو یکے بعد دیگر ارادے قائم ہیں تو ان کے مرادات بھی یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے ہیں اور اسی طرح اس کے وہ تمام افعال جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہیں اور وہ سارے کے سارے ارادات اس کی ذات کے لوازم میں سے ہیں تو پھر یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک ارادہ قدیمہ کے مراد کے لے مرید بنے کیونکہ اگر وہ اپنے مراد کے لیے ملزوم ہیں تو یہ اس کو مستلزم ہے کہ ازل میں کوئی حادث معین پایا جائے اور اس کا مراد اس سے متاخر ہو تو پھران مراد کے حصول میں وہ ارادہ ہی کافی ہے جو متاخر ہے پس وہاں پرکوئی ایسا مقتضی نہیں پایا گیا جو اس کے وجود کو چاہتا ہو پس وہ موجود نہیں ہونگے کیونکہ حادث تو تب موجود ہوتا ہے جب اس کا کوئی مقتضی تام پایاجائے ۔
لہٰذا یہ فرض کر لیا جائے کہ فاعل دھیرے دھیرے ارادہ کرتا ہے اور وہ فعل کو بھی یکے بعد دیگر وجود دیتا ہے تو یہ بات لازم آئی کہ یہ اس کے ذات کے لوازم میں سے ہو پس اس کی ذات ہی شیئاً فشیئاًافعال کے حدوث کا تقاضا کرنے والی ہو پس اس کی مفعولات بھی بطریق اولیٰ دھیرے دھیرے وجود میں آئیں گے اور جب صورتِ حال اس طرح ہے تو اس کی ذات ہی ان تمام افعال اور مفعولات کے حدوث کا تقاضا کرنے والی ٹھہری اور جب اس کی ذات ہی اس کا تقاضا کرنے والی ہے تو اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ یہ امرممتنع ہے کہ وہ کسی فعل یا مفعول کے قدم کا تقاضا کرتی ہو باجود یکہ ان دونوں کا ایک ارادہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور وہ ان دونوں کو مستلزم
|