اور اس سے وہ صفت زائل ہو گی جو پہلے موجود تھی اور وہ پیدا ہو گی جو پہلے سے موجود نہیں تھی تو ایک موجود شے کا زوال ممتنع ہوا کیوں کہ قدیم تو قدیم تب بنتا ہے جب وہ واجب بنفسہ یابغیرہ ہو بلکہ قدیم پس جب یہ بات معلوم ہے کہ قدیم واجب بنفسہ یابغیرہٖ ہے تو اس کے عدم کے امتناع کا علم بہت ہی زیادہ مؤثر اور بہت زیادہ پختہ اور پکا ہے اور جب عالم میں کوئی شے اس حال میں قدیم اور ازلی بنے جب اس میں کوئی بھی شیٔ حادث نہ تھا اور پھر اس میں کوئی حادث پیدا ہو جائے تو پس بتحقیق اس نے اس کو اس حالتِ قدیمہ سے تبدیل کر دیا جو ازلیہ تھی جس کی وجہ سے وہ واجب بنفسہ اور بغیرہ تھا ایک دوسرے حالت کی طرف جو اول حال کے مخالف ہے اور یہ باوجود یکہ ممتنع ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ کسی سببِ حادث کے بغیر ہو تو یہ ممتنع ہے (دونوں وجہوں سے )۔
اس وجہ سے بھی اور اس سے بھی اور یہ بھی کہ عالم کا حوادث کے ساتھ مقارنت سے جدائی متصور ہی نہیں اس لیے کہ یقیناً اجسام حوادث کے اتصال سے خالی نہیں ہوتے مثلاً حرکت اور علاوہ ازیں باتفاق عقلاء عالم میں کوئی شے ایسی نہیں مگر صرف وہی ہیں جو بذاتِ خود قائم ہیں یا غیر کی وجہ سے قائم ہیں اور اعیان (اجسام )تو حوادث کے اتصال سے خالی نہیں ہوتے اس لیے کہ اگروہ (کسی وقت میں )ان سے خالی ہوں اور پھر ان کے ساتھ متصل ہو جائیں تو بغیر کسی سبب حادث کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا اور یہ باطل ہے ۔
اگر یہ بات نہ ہو تو پھر توبغیر سبب کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا پس عالم کے قدم کا قول باطل ہوا پھر بہت سے اہل نظر تو یہ کہتے ہیں کہ عالم میں تو صرف اور صرف جسم یا عرض ہی پایا جاتا ہے اور ان لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو مشار الیہ کے ساتھ جسم کی تخصیص کرتے ہیں یعنی جس کی طرف حسی اشارہ کیا جا سکے صرف وہی جسم ہوتا ہے اور اس بات کو ممنوع سمجھتے ہیں کہ ہر جسم جوہرِ فرد یا مادہ اور اس صورت سے مرکب ہو پس اُن پر تو وہ اشکال نہیں ہوتا جو دوسروں پر ہوتا ہے ۔
اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ عالم میں ایسی اشیاء بھی ہیں جو اس سے خارج ہیں یعنی جوہر اور عرض میں داخل نہیں جس طرح کہ وہ لوگ جو عقول اور نفوس کو ثابت کرنے والے ہیں ،کہتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اجسام نہیں بلکہ نفوس تو جسم کے ساتھ متصل ہی ہونگے اس سے جدا نہیں ہوتے بلکہ وہ تو اس کے ساتھ مقارن اور متصل ہیں اور اس کی تدبیر اور انتظام کرنے والے ہیں پس وہ حوادث سے جدا نہیں ہو سکتے ۔
نیز یہ بھی کہ نفوس تصورات اور حادث ارادوں سے جدا نہیں ہوتے پس وہ حوادث کے ساتھ ہمیشہ کے لیے مقارن ہیں اور عقول تو اس کے لیے علت ہیں جواپنے معلولات کومستلزم ہیں اور زمان کے کسی بھی جزء میں اس پر مقدم نہیں ہوتے پس یہ امرممتنع ٹھہراکہ عالم میں کوئی ایسی شے ہو جو حوادث سے سابق ہو پس یہ بات بھی ممتنع ثابت ہوئی کہ اس میں سے کوئی شے قدیمِ ازلی بنے جو کہ حوادث پر سابق ہو اور ایسی صورت میں عالم میں سے
|