جواب میں کہا جائیگا کہ کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ اس کی علت کا نہ ہونا مستلزم ہے اس کے عدم کو اوروہ دلیل ہے اس کے عدم پریا مراد یہ ہے کہ اس کی علت کا عدم ہی وہ چیز ہے جس نے اس کو خارج میں معدوم بنا دیا پس پہلی مراد تو صحیح ہے لیکن اس کے تو تم قائل نہیں اور دوسری بات درست نہیں اس لئے کہ وہ عدم جو صفت استمرار کیساتھ ثابت ہے اس کا علت کی طرف احتیاج اسی طرح ہے جس طرح عدم العلۃ کا علت کی طرف اور یہ بداہۃ ثابت ہے کہ جب کہا جائے کہ علت کے معدوم ہونے کی وجہ سے فلان چیز معدوم ہوا تو کہا جائیگا کہ وہ عدم بھی تو اس کے علت کے عدم کی وجہ سے ہے اور یہ امر علل اور معلولات میں تسلسل کا تقاضا کرتی ہے اور وہ صریح عقل کی بنا پر باطل ہے لہٰذا اس کا بطلان تو ظاہر ہے لیکن مقصود تو ان مخالفین یعنی ملحد فلاسفہ کے بعض تناقضات کو بیان کرنا ہے جو کہ صریح معقول اور صحیح منقول کے ساتھ معارض ہیں ۔
اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ اس کا مسبوق بالعدم ہونا ایک کیفیت ہے جو وجود کو اس کے حصول (یعنی وجود میں آنے کے بعد)کے بعد پیش آتی ہے اور وہ اس کیساتھ لازم ہے لیکن علت نہیں تو اسے کہا جائیگا یہ کوئی صفت ثبوتیہ تو نہیں بلکہ یہ تو ایک صفت اضافیہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ وہ موجود ہوا بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا پھر اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ اس کیلئے صفت لازمہ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مؤثر کی طرف احتیاج پر ایک دلیل ہے اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ تم نے اِس کو اُس کے احتیاج کی علت فرض کرلیا ہے اور احتیاج کا معلول فرض نہیں کیا پس اس کا غنی ہونا اس کی علت بننے سے مانع نہیں ہے بلکہ اس کے معلول ہونے سے مانع ہے ۔
اگر وہ یہ کہے کہ یہ تو اس کے احتیاج اور افتقار سے مؤخر ہے اور متاخر متقدم کیلئے علت نہیں بنتا۔
تو جواب میں کہا جائیگا کہ : یہ بات میں نے اس مقام کے علاوہ اور کئی مقامات پر ذکرکر دی ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ وہ افتقار اور احتیاج پر دلیل تو ہے لیکن اس کیلئے موجب نہیں ۔ اورباتفاق عقلاء دلیل اپنے مدلول سے مؤخر ہوتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ اگر حدوث مؤثر کی طرف افتقار اور احتیاج پر دلیل ہے۔ تو یہ بات لازم نہیں آتی کہ ہر مؤثر کی طرف محتاج حادث ہی بنے۔ اس لئے کہ دلیل میں اس کا عموم واجب ہے ،اس کا عکس واجب نہیں ۔
تو جواب میں کہا جائیگا کہ :ہاں اس اعتبار سے دلالت کی انتفاء دوسرے وجوہ سے دلالت کی نفی نہیں کرتی ۔ مثال کے طورپر یہ کہا جائے کہ فاعل کی طرف اس کے احتیاج کی شرط اس کا محدث اور حادث ہونا ہے اور شرط تومشروط کیساتھ مقارن ہوتا ہے اور یہ بھی ان امور میں سے ہے جن کے ذریعے اتصال واقتران کو بیان کیا جاتا ہے پس کہا جائیگا کہ احتیاج کی علت جو کہ افتقار واحتیاج کے شرط کے معنی پر ہے وہ اس کا حادث یا ممکن ہونا یا دونوں کا مجموعہ ہے اور یہ سب کے سب حق ہیں اور مثال کے طور پر یوں کہا جائے کہ وہ علت جو فاعل کی طرف
|