Maktaba Wahhabi

190 - 230
عُمَرُ، وَلَا سَبِیلَ أَنْ یَّکُونَ بَعْدَہٗ نَبِيٌّ کَمَا لَا سَبِیلَ أَنْ یَّکُونَ عُمَرُ نَبِیًّا ۔ ’’لغت عرب کے مطابق لفظِ لَوْیہ ظاہر کرتا ہے کہ دو چیزیں ایک دوسرے کا لازمہ ہیں ، یعنی اگر ایک چیز نہ ہو گی، تو دوسری بھی نہ ہو گی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی نبی نہیں ، تو کوئی دوسر ابھی نبی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (شرح صحیح البخاري : 3/42) یہ قضیہ سمجھ لینے کے بعد اب ملا علی قاری رحمہ اللہ کی ایک عبارت کو سمجھنا آسان ہو جائے گا، ختم نبوت کے حوالے سے ملا علی قاری رحمہ اللہ کا وہی موقف ہے، جو تمام امت کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں آ سکتا، آپ کے بعد جو نبوت کا دعوی کرے گا، کافر و مرتد ہو گا، تاہم ان کی ایک عبارت سے بعض لوگوں نے ایسامعنی کشید کرنے کی کوشش کی ہے، جو ملا علی قاری رحمہ اللہ کی مراد نہیں تھا۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک حدیث : لَوْ عَاشَ لَکَانَ نَبِیًّا ’’ابراہیم زندہ ہوتے، تو نبی ہوتے۔‘‘ پر بحث کی ہے۔ وہ اس حدیث پر علما مثلا حافظ ابن عبد البرا ورحافظ نووی رحمہما اللہ کے اقوال نقل کرتے ہیں ، جن کے مطابق یہ حدیث ضعیف ہے، مگر ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کو صحیح مانتے ہیں اوراس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : إِنَّہٗ یُومِیُٔ إِلَیْہِ بِأَنَّہٗ لَمْ یَعِشْ لَہٗ وَلَدٌ یَّصِلُ إِلٰی مَبْلَغِ الرِّجَالِ فَإِنَّ
Flag Counter