Maktaba Wahhabi

531 - 647
اباحت ثابت کی جاتی ہے،اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ’’ولیستا بمغنیتین‘‘ ثبوتِ اباحت کی نفی کرتا ہے۔بخاری شریف پارہ ۴ ’’باب سنۃ العیدین‘‘ میں ہے: ’’عن عائشۃ رضي اللّٰه عنها قالت:دخل أبوبکر رضی اللّٰه عنہ،وعندي جاریتان من جواري الأنصار تغنیان بما تقاولت الأنصار یوم بعاث،ولیستا بمغنیتین‘‘[1] [حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ابوبکر آئے،اس وقت انصار کی دو چھوکریاں میرے پاس وہ شعر گا رہی تھیں،جو انصار نے جنگِ بعاث میں کہے تھے اور وہ پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں ] نیز بہت سے علما نے اسے حرام لکھا ہے۔ حررہ:عبدالوہاب،عفي عنہ۔ هو الموافق مجیب نے مسئلہ غنا و سماع میں اجمال سے کام لیا ہے،نیز علامہ شوکانی کو اباحتِ مطلقہ کے قائلین سے شمار کیا ہے،حالانکہ علامہ ممدوح اباحتِ مطلقہ کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔علامہ ممدوح نے اس مسئلے پر نیل الاوطار میں دو مقام میں بحث کی ہے۔دونوں مقام سے ان کی عبارت مع ترجمہ نقل کی جاتی ہے،تاکہ اس مسئلے میں جو ان کی تحقیق ہے،وہ ظاہر ہو اور فی الجملہ اس مسئلے کی توضیح بھی ہو۔ نیل الاوطار (۶/ ۱۰۶) ’’باب الدف واللہو‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وفي ذلک (أي في حدیث فصل ما بین الحلال والحرام الدف والصوت في النکاح) دلیل علی أنہ یجوز في النکاح ضرب الأدفاف ورفع الأصوات بشيء من الکلام نحو أتیناکم أتیناکم ونحوہ لا بالأغاني المھیجۃ للشرور المشتملۃ علی وصف الجمال والفجور ومعاقرۃ الخمور،فإن ذلک یحرم في النکاح کما یحرم في غیرہ،وکذلک سائر الملاھي المحرمۃ‘‘ یعنی اس حدیث میں کہ حلال نکاح و حرام نکاح میں دف اور صوت کا فرق ہے،اس بات کی دلیل ہے کہ جائز ہے نکاح میں دف بجانا اور آواز بلند کرنا ایسے کلام کے ساتھ جو ’’أتیناکم أتیناکم‘‘ کے مثل ہو،نہ ایسا گیت گانا جو برائیوں کو ہیجان میں لانے والا ہو،یعنی جو بیانِ حسن و جمال اور فجور و شراب نوشی پر مشتمل ہو،اس واسطے کہ ایسا گیت نکاح میں بھی حرام ہے اور غیرِ نکاح میں بھی،اسی طرح تمام ملاہی محرمہ نکاح میں بھی حرام ہیں اور غیر نکاح میں بھی حرام ہیں۔ نیز نیل الاوطار (۷/ ۳۱۵) میں لکھتے ہیں: ’’قد اختلف العلماء في الغناء مع آلۃ من آلات الملاھي و بدونھا،فذھب الجمھور إلی التحریم مستدلین بما سلف،و ذھب أھل المدینۃ ومن وافقھم من علماء الظاھر و
Flag Counter