Maktaba Wahhabi

84 - 647
اصلاح ہوتی اور نہ اصلاح ہوسکتی ہے۔سچ ہے:لن بصلح العطار ما أفسدہ الدھر ’’جس کو زمانہ خراب کر دے،عطار اس کی اصلاح کیا کرے گا!‘‘ ھذا ما عندي واللّٰه تعالیٰ أعلم۔[1] زبان سے سہواً کلمۂ کفر نکل جانے کا حکم: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں: 1۔زید مریض کو دیکھ کر بولا کہ اکثر حکما یوں کہتے ہیں کہ ہماری دوا استعمال کرتے ہی اس مریض کو آرام ہو گا،حالانکہ آرام نہیں ہوتا ہے۔اس پر خالد نے بنگلہ میں بطورِ استفہام انکاری کے یوں کہا،جس کا ترجمہ اردو میں یہ ہوتا ہے کہ کیا وہ لوگ خدا کے خالہ زاد بھائی ہیں ؟ آیا اس کہنے پر خالد عاصی ہوگا یا نہیں ؟ 2۔اگر سہواً خطاً کلمہ کفر کسی مومن کی زبان پر جاری ہو،اس کا کیا حکم ہے:کافر ہوگا یا نہیں ؟ 3۔اگر کوئی شخص خالد مذکور یا شخص خاطی مذکور کو کافر کہے،اس پر کیا حکم ہے؟ بینوا بالدلیل والبرھان،تؤجروا عند الرحمن۔ جواب:1. ہر گز خالد عاصی نہیں،کیونکہ خالد کا قول یہاں بطور استفہامِ انکاری کے ہے اور استفہامِ انکاری جس پر داخل ہوتا ہے،اس کا خلاف مقصود ہوتا ہے،یعنی اگر مثبت پر داخل ہو تو مراد منفی ہوتا ہے،جیسا کہ اﷲ پاک نے فرمایا ہے:{فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ} [الملک:۳] [اپنی نگاہوں کو بار بار گھماؤ،کیا تم کسی قسم کا نقص دیکھتے ہو؟] اور اگر استفہامِ انکاری منفی پر داخل ہو تو مراد مثبت ہوتا ہے،جیسا کہ اﷲ پاک کا قول ہے: {اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی} [القیامۃ:۴۰] [کیا یہ (خدا) اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو زندہ کر سکے؟] وقولہ تعالیٰ:{اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ} [التین:۸] [کیا خداوند تعالیٰ سب حاکموں کے حاکم نہیں ہیں ؟] اور جب استفہام بلا قرینہ ہو تو وہ احتمال رکھتا ہے تقریری اور انکاری،لیکن متکلم جو مراد لے گا،وہی متعین ہو گی،اس کو متکلم ہی خوب جانتا ہے،غیر کو کیا دخل ہے؟ اور اگر قرینہ،خواہ حالیہ یا مقالیہ،موجود ہو تو مخاطب بھی سمجھ سکتا ہے اور اس محل میں قرینہ مقالیہ موجود اظہر من الشمس ہے،کیونکہ جب زید بولا کہ اکثر حکما یوں کہتے ہیں کہ ہماری دوا استعمال کرتے ہی اس مریض کو آرام ہوگا،حالانکہ آرام نہیں ہوتا ہے،اس پر خالد بولا کہ کیا وہ لوگ خدا کے خالہ زاد بھائی ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں،کیونکہ اگر ہوتے تو آرام کیوں نہیں ہوتا،پس زید کا کلام قرینہ ہے اس بات پر کہ خالد کے
Flag Counter