Maktaba Wahhabi

51 - 647
اہلِ علم اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشکلاتِ حدیث کے حل کرنے میں مولانا کا پایہ کتنا بلند ہے۔‘‘[1] محترم ڈاکٹر بہاؤالدین حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’علمِ حدیث میں تبحر حاصل تھا۔روایت اور درایت پرعبور تھا۔طب و حکمت خاندانی ورثہ تھا۔قوتِ حافظہ خدا داد تھی۔زندگی علم و فضل،تقویٰ و طہارت اور زہدو قناعت سے عبارت تھی۔‘‘[2] عادات و شمائل: حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے اوصاف اتنے بے شمار ہیں کہ احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایک بہترین نمونہ بنایا تھا۔ظاہری محاسن و اوصاف دیکھیں تو بھی اور باطنی خصائل و اوصاف دیکھیں تو بھی یہی کیفیت ہے۔کسی نے سچ کہا ہے: وَلَیْسَ عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنْکََرٍ أَنْ یَّجْمَعَ الْعَالَمَ فِيْ وَاحِدٖ ’’اﷲ تعالیٰ کے لیے کچھ عجیب نہیں کہ ایک جہان کو ایک آدمی میں سمو دے۔‘‘ مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ ان کی طبیعت ثانیہ اورروحانی غذا ہے۔مہمانوں سے نہایت تواضع اور عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔[3] صاحبِ ’’نزہۃ الخواطر‘‘ مولانا حکیم عبد الحی الحسنی (المتوفی ۱۳۴۱ھ) حضرت محدث مبارک پوری کے عادات و فضائل کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وکان من العلماء الربانیین،عالماً عاملاً،خاشعاً متواضعاً،رقیق القلب،سریع الدمعۃ،کثیر البکاء،سخیاً،صاحب إیثار و کرم وبر بطلبۃ العلم،بعیداً عن التکلف فيالملبس،والمأکل والمظہر والمخبز،زاہدا متقللا من الدنیا،قانعا بالیسیر،زاہدا في المناصب والرواتب الکبیرۃ،مکبا علی العلم والتالیف والمطالعۃ،کثیر الصمت،کف بصرہ في آخر عمرہ،ثم عاد بعملیۃ القدح،واعترتہ الأمراض الأخری‘‘[4] ’’آپ علماے ربانیین میں سے اورعالم باعمل تھے۔خشوع و خضوع اور تواضع والے تھے۔دل کے نرم،جلد آنسو بہانے والے اور بہت رونے والے تھے۔سخی اورایثار و کرم والے تھے۔طالب علموں کے لیے ہر طرح کی بھلائی کرنے والے،کھانے پینے اور پہننے کے معاملے میں ہر تکلف سے دور خود کو ظاہر کرنے سے کنارہ کش تھے۔آپ دنیا میں بہت ہی کنارہ کش اور کمی والے تھے اور تھوڑے ہی پر قناعت کرنے
Flag Counter