Maktaba Wahhabi

420 - 647
روپے لے کر خاوند کا رضا مندی سے بیوی کو طلاق دینا: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ عورت دیندار ہے اور خاوند اس کا کبھی نماز پڑھتا ہے،کبھی نہیں۔اس عورت نے ایک دیندار،پرہیزگار مرد سے کہا کہ اگر تو مجھ سے نکاح کر لے۔مرد نے کہا کہ اگر تیرا خاوند تجھ کو طلاق دے دے تو البتہ ہم تجھ سے نکاح کریں گے۔یہ سن کر وہ عورت اپنے خاوند سے بگاڑ کرنے لگی۔وہ اپنے خاوند کے گھر سے گاہ بگاہ بلااجازت خاوند کے میکے چلی گئی اور اس مرد دیندار نے چاہا کہ اگر اس کا خاوند ہم سے روپیہ لے لیتا اور اس کو طلاق دے دیتا تو اچھی بات ہوتی۔پھر اس کے خاوند کو معلوم ہوا کہ ہماری عورت سے اور فلاں شخص سے یہ بات چیت ہوئی ہے،اب ہمارے یہاں نہیں رہے گی،یہ بات اس کو اچھی طرح سے یقین ہوگئی،تب اس کے خاوند سے اور مرد دیندار سے کچھ بات چیت ہوئی،اس دیندار نے اس کے خاوند سے کہا کہ تو اپنی عورت کو طلاق دے دے اور ہم سے بیس پچیس روپیہ لے لے،اس کے خاوند نے سوچا کہ اب طلاق دے دینا اچھا ہے،کیونکہ بی بی تو ہمارے یہاں رہے گی نہیں تو ہم کیوں لٹکے رہیں۔یہ سوچ کر اس نے روپے لے لیے اور اپنی بی بی کو طلاق دے دی،بر وقت طلاق دینے کے لوگوں نے پوچھا کہ تو کیوں طلاق دیتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہم اپنی خوشی سے طلاق دیتے ہیں،پس بعد طلاق و عدت کے اس شخص نے یعنی جس نے روپے دیے تھے،اس عورت سے نکاح کر لیا۔آیا یہ نکاح عند الشرع جائز ہے یا نہیں اور ایسے شخص سے مسلمان پرہیزگار کو سلام و دعوت و تواضع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:یہ نکاح جائز ہے،اس لیے کہ وقوعِ طلاق میں کسی قسم کا شک باقی نہیں رہا،کیونکہ اس شخص نے لوگوں کے سامنے طلاق دی،ہاں روپے کی شرط باطل ہے،لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ما کان من شرط لیس في کتاب اللّٰه فھو باطل،وإن کان مائۃ شرط،قضاء اللّٰه أحق وشرط اللّٰه أوثق‘‘[1] الحدیث۔ [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر وہ شرط جو اﷲ کی کتاب میں نہیں ہے،وہ باطل ہے،اگرچہ سو شرط ہو،اﷲ کا فیصلہ بہت زیادہ حق رکھتا ہے اور اﷲ کی شرط سب سے زیادہ معتبر ہے] اس شخص کو لازم ہے کہ آیندہ ایسی بات سے پرہیز کرے،یعنی رشوت دے کر طلاق طلب نہ کیا کرے،اس واسطے کہ رشوت کا لینے والا اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں،[2] پس اگر آیندہ کے واسطے توبہ کرے تو اس سے سلام کرنا
Flag Counter