Maktaba Wahhabi

290 - 647
کہا ہے:شاید اس کا باپ جتنے مال کا محتاج ہو وہ بہت زیادہ ہو وہ اس کی ضرورت سارے مال ہی سے پوری ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مال روکنے کی اجازت نہیں دی،بلکہ فرمایا:’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘ یعنی وہ جب چاہے بقدرِ ضرورت اس سے لے لے۔اگر تیرے پاس مال نہ ہو تو تجھ پر لازم ہے کہ تو مال کما کر اس پر خرچ کرے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارادہ ہر گز نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اس کے لیے مال مباح کر دیں کہ وہ اسراف کرتا ہوا اس کو ضائع کر دے۔مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے اس سے یہ مطلب و مفہوم نکالا ہو] نیز اس مطلب پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت دلالت کرتی ہے: (( إن أولادکم ھبۃ اللّٰه لکم،یھب لمن یشاء إناثا،ویھب لمن یشاء الذکور،فھم وأموالھم لکم إذا احتجتم إلیھا )) [1] [تمھاری اولاد تمھارے لیے اﷲ تعالیٰ کا ہبہ ہے،وہ جسے چاہتا ہے مونث اور جسے چاہتا ہے مذکر عطا کر دیتا ہے۔چنانچہ وہ اور ان کے مال تمھاے لیے (مباح) ہیں جب تمھیں ان کی ضرورت ہو] لیکن ابو داود نے اپنی سنن میں زیادت (( إذا احتجتم إلیھا )) کو منکر ٹھہرایا ہے۔اس حدیث کا یہی مطلب ہونا ظاہر ہے،جیسا کہ اصولِ شریعت سے واقفیت رکھنے والوں پر مخفی نہیں،لہٰذا باپ اپنی اولاد کے مال سے بلا اجازت اس کے اپنے کھانے پینے وغیرہ اپنی حاجتوں کے لیے لے سکتا ہے،لیکن صدقہ و خیرات کے لیے بلا اجازت اس کے نہیں لے سکتا،پس صورتِ مسئولہ میں وہ عورت بغیر اجازت اولاد کے صدقہ نہیں کر سکتی۔ہذا ما عندي واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ عشر کے احکام و مسائل خراجی زمین میں عشر ہے یا نہیں ؟ سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ خراجی زمین میں عشر لازم ہے یا نہیں ؟ جواب:یہ مسئلہ معارک عظیمہ سے ہے۔امام مالک و امام شافعی و امام احمد رحمہم اللہ کا یہ مذہب ہے کہ دونوں لازم ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں سوائے خراج کے اور کچھ لازم نہیں،چنانچہ ہدایہ میں ہے:’’ولا عشر في الخارج من أرض الخراج‘‘[2] [خراجی زمین کی پیداوار میں عشر نہیں ہے] فتح القدیر میں ہے:’’وقال الشافعي
Flag Counter