Maktaba Wahhabi

127 - 647
میں بھی۔و عبارۃ الفتح ہکذا: ’’ولیس بین حدیث الغسل وحدیث الفرک تعارض،لأن الجمع بینھما واضح علی القول بطھارۃ المني بأن یحمل علیٰ الاستحباب للتنظیف لا علیٰ الوجوب،وھذہ طریقۃ الشافعي وأحمد وأصحاب الحدیث،وکذا الجمع ممکن علیٰ القول بنجاستہ بأن یعمل الغسل علی ما کان رطبا،والفرک علیٰ ما کان یابسا،وھذہ طریقۃ الحنفیۃ،والطریقۃ الأولی أرجح،لأن فیہ العمل بالخبر والقیاس معاً،لأنہ لو کان نجساً لکان القیاس وجوب غسلہ دون الاکتفاء بفرکہ کالدم وغیرہ،وھم لا یکتفون فیما لا یعفی عنہ الدم بالفرک،ویرد الطریقۃ الثانیۃ أیضاً ما في روایۃ ابن خزیمۃ من طریق أخری عن عائشۃ:کانت تسلت المني من ثوبہ بعرق الإذخر،ثم یصلي فیہ،وتحکہ من ثوبہ یابسا،ثم یصلي فیہ،فإنہ یتضمن ترک الغسل في الحالتین‘‘[1] انتھت عبارۃ الفتح۔واللّٰه تعالیٰ أعلم،وعلمہ أتم۔ [منی کو کھرچ دینے اور دھونے کی حدیثوں میں تعارض نہیں ہے،کیوں کہ جو لوگ منی کو پاک کہتے ہیں،ان کے مذہب پر یہ اس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ دھونا استحباب پر محمول کیا جائے نہ کہ وجوب پر،امام احمد،شافعی اور اہلِ حدیث کا یہی مذہب ہے اور جو اس کو ناپاک کہتے ہیں،ان کے نزدیک اس طرح جمع ہو سکتی ہیں کہ تر کے لیے دھونا اور خشک کے لیے کھرچنا۔یہ احناف کا مسلک ہے اور مسلک اول زیادہ راجح ہے،کیوں کہ اس میں حدیث اور قیاس دونوں پر عمل ہوسکتا ہے،کیوں کہ اگر منی ناپاک ہوتی تو اس کا دھونا خون کی طرح واجب ہوتا،کھرچنے کی اجازت نہ ہوتی،کیوں کہ حنفی جب خون کے پلید ہونے کے قائل ہیں تو اس کے کھرچنے کے قائل نہیں،بلکہ اس کا دھونا ضروری سمجھتے ہیں اور پھر دھونے کی روایت ایک اور طریق سے بھی آئی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اذخر کے پانی سے اسے مدہم کر دیتیں یا کھرچ ڈالتیں۔اس سے دونوں طرح دھونے کا ترک ثابت ہوگیا] کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سید محمد نذیر حسین گوبر کی طہارت و نجاست: میں نے اپنے تعاقب (بر فتویٰ مولانا امرتسری نمبر ۱۹۴) مندرجہ اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ (مجریہ ۲۵/ ذی الحجہ ۱۳ھ)
Flag Counter