Maktaba Wahhabi

437 - 647
کتاب البیوع ہڈی کی تجارت: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ہڈی کی تجارت جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:ہڈی کی تجارت جائز ہے،ماکول اللحم کی ہڈی ہو یا غیر ماکول اللحم کی۔صحیح بخاری[1] (صفحہ:۱۷۰) میں ہے: ’’قال حماد:لا بأس بریش المیتۃ۔وقال الزھري في عظام الموتیٰ نحو الفیل وغیرہ:أدرکت ناساً[2]من سلف العلماء یمتشطون بھا،ویدھنون فیھا،و لا یرون بہ بأسا۔وقال ابن سیرین وإبراھیم:لا بأس بتجارۃ العاج‘‘[3] انتھیٰ یعنی حماد بن ابی سلیمان کوفی فقیہ نے کہا کہ مردار کے پَر میں کچھ مضائقہ نہیں ہے (یعنی مردار کا پر نجس نہیں ہے،ماکول اللحم کا پَر ہو یا غیر ماکول اللحم کا ہو) [4] اور زہری نے مردار جانور جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیوں کے بارے میں (یعنی ان جانوروں کی ہڈیوں کے بارے میں جو غیر ماکول اللحم ہیں)[5] کہا ہے کہ میں نے بہت سے علماے سلف کو پایا کہ وہ ان ہڈیوں کے کنگھے استعمال کرتے تھے اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ابن سیرین اور ابراہیم نے کہا کہ ہاتھی کے دانت کی تجارت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان بہت سے علمائے سلف اور ابن سیرین و ابراہیم کے اس قول کی تائید ابو داود کی اس حدیث سے ہوتی ہے: (( یا ثوبان! اشتر لفاطمۃ قلادۃ من عصب وسوارین من عاج )) [6] أخرجہ في باب الانتفاع بالعاج۔[7]
Flag Counter