Maktaba Wahhabi

432 - 647
کتاب الوقف ایک مدرسے کے وقف کو جبراً دوسرے مدرسے میں استعمال کرنا ناجائز ہے؟ سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک بستی میں ایک شخص مسلمان دین دار تھا اور وہ مالدار بہت کچھ جائداد والا تھا۔وہ شخص چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو کر قریب موت کے ہوگیا تھا اور اس وقت دو تین آدمی معتبر اور عالم بھی ان کے پاس موجود تھے،جو عیادت کے واسطے آئے تھے،اس مریض نے ان معتبر آدمیوں اور عالم کے روبرو وصیت کیا کہ ہماری زمینوں میں فلاں فلاں پچاس بیگہ زمین مدرسہ مسمی ’’فلاح المسلمین‘‘ کے نام سے ہم نے وقف کر دیا،آپ لوگ اس بات پر گواہ رہیں۔اس وصیت کے چند گھنٹے کے بعد وہ شخص موصی انتقال کر گیا۔بعدہ مدرسہ مذکورہ کے مہتمم وغیرہ نے اس زمین موقوفہ کی آبادی کا انتظام و تدبیر کیا۔جس بستی میں یہ زمین موقوفہ ہے،اس بستی والوں نے اپنی بستی میں ایک دوسرا مدرسہ قائم کیا اور ایک مدرس کو نوکر رکھا،پھر وہ اس زمین موقوفہ کی زمین ظلماً و جبراً لے کر اپنی اس بستی کے مدرسے میں خرچ کرتے ہیں اور مدرس کو تنخواہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مدرسہ فلاح المسلمین بھی مدرسہ ہے اور یہ بھی مدرسہ ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ اس زمین موقوفہ کی آمدنی کو ظلماً و جبراً لے کر دوسرے مدرسے میں خرچ کرنا حلال ہے اور ایسا کرنے والے لوگ گناہ گار ہیں یا ثواب کے مستحق ہیں ؟ دوسرے مدرسے کے مدرس کو اس موقوفہ زمین کی آمدنی سے جان سن کر تنخواہ لینا حرام ہے یا حلال؟ مرسلہ:محمد عبدالکریم طالب علم مدرسہ دوآری،پوسٹ نوہٹہ ضلع راج شاہی ملک بنگال جواب:موصی مذکور نے جس قدر زمین مدرسہ فلاح المسلمین کے نام پر وقف کیا ہے،اس زمین موقوفہ کی کل آمدنی کو اسی مدرسہ فلاح المسلمین میں خرچ کرنا چاہیے،اس مدرسہ فلاح المسلمین کے علاوہ کسی دوسرے مدرسے میں اس زمین موقوفہ کی آمدنی کو خرچ کرنا جائز نہیں،پس جو لوگ اس زمین موقوفہ کی آمدنی کو ظلماً و جبراً لے کر دوسرے مدرسے میں خرچ کرتے ہیں،وہ گناہ گار ہیں اور ثواب کے مستحق نہیں،بلکہ وہ لوگ عذاب کے مستحق ہیں۔کسی دوسرے مدرسے کے مدرس کو جان سن کر اس زمین موقوفہ کی آمدنی سے تنخواہ لینا جائز نہیں ہے۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔(۱۷/ ربیع الثانی ۱۳۳۸ھ)
Flag Counter